Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

242 - 607
جیسا کہ بیوی کا، چھوٹی اولاد کا نفقہ ہے اور اسی طرح سے دوسرے نفقات ہیں، یا اسی طرح سے مضطر کی ضرورت کا پوراکرنا ہے کہ جو شخص بھوک یاپیاس کی وجہ سے مررہا ہے اس کو موت سے بچانا فرضِ کفایہ ہے۔ امام غزالی  ؒ  ’’اِحیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ بعض تابعین کا مذہب یہ ہے کہ مال میںزکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں، جیسا کہ نخعی، شعبی، عطا اور مجاہد  ؒ  کا مذہب ہے۔ امام شعبی  ؒ سے کسی نے پوچھا کہ مال میںزکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی حق ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہے اور قرآن پاک کی آیت { وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ}تلاوت فرمائی جو سب سے پہلی فصل کی آیات میںنمبر (۲) پرگزری چکی ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حقوقِ مسلم میں داخل ہے کہ مال داروں کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ جب وہ کسی ضرورت مند کو دیکھیں تو اس کی ضرورت کاازالہ کریں، لیکن جو چیز فقہ کے اعتبار سے صحیح ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کو اضطرار کا درجہ حاصل ہو جائے تو اس کا ازالہ فرضِ کفایہ ہے، لیکن اس کا ازالہ بطور قرض کے کیا جائے یا اعانت کے طور پر، یہ فقہا کے یہاں مختلف فیہ ہے۔ (اِحیاء العلوم)
مضطر کی اعانت اپنی جگہ پر مستقل واجب ہے جب کہ وہ بھوک سے یا پیاس سے یا کسی اور وجہ سے ہلاکت کے قریب ہو، لیکن مال دار پر مالی حیثیت سے زکوٰۃ سے زیادہ واجب نہیں ہے۔ یہاں دو امر قابلِ لحاظ ہیں۔ اول اِفراط۔ ہم لوگوں کی عادت یہ ہے کہ جب بھی کسی چیز کی طرف بڑھتے ہیں تو ایسا زور سے دوڑتے ہیں کہ پھر حدود کی ذرا بھی پرواہ نہیں رہتی۔ اس لیے اس کی رعایت ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص کا مال بغیر اس کی طیبِ خاطر کے لینا جائز نہیں ہے۔ فقہا نے مضطر کے لیے دوسرے کامال کھانے کی ضرور اجازت دی ہے، لیکن اس میں خود حنفیہ کے یہاں بھی دوقول ہیں کہ اس کو مردار کا کھانا دوسرے کا مال کھانے پر مقدم ہے یا دوسرے کا مال مردار کھانے پر مقدم ہے، جیسا کہ کُتب فقہ میں مذکور ہے؟ لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اس حالت پر پہنچ جائے کہ اس کو مردار کھانے کی اجازت ہو جائے، جب وہ دوسرے کامال کھا سکتا ہے، حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے:
{وَلَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَا اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o} 
(البقرۃ : ع ۲۳)


اور آپس میںایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو، اور ان کو حکام کے یہاں اس غرض سے نہ لے جائو کہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ بطریقِئ گناہ کے کھاجائو اور تم اس کو جانتے ہو۔
 حضورِ اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرو، کسی شخص کا مال اس کی طیبِ خاطر بغیر لینا حلال نہیں ہے۔ (مشکاۃ 
Flag Counter