Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

240 - 607
زکوٰۃ میںاپنا بہترین مال دینا چاہتے ہیں۔
دوسرا واقعہ حضرت اُبی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضورﷺ نے ایک مرتبہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ میں ایک صاحب کے پاس گیا۔ جب انھوںنے اپنے اونٹ میرے سامنے کیے تو میں نے دیکھا کہ ان میں ایک سال کی اونٹنی واجب ہے۔ میں نے ان سے کہاکہ ایک سالہ اونٹنی دے دو۔ وہ کہنے لگے کہ ایک سالہ اونٹنی کس کام آئے گی، نہ تو وہ سواری کا کام دے سکتی ہے نہ دودھ کا؟ یہ کہنے کے بعد انھوں نے ایک نہایت عمدہ بہت موٹی تازی بڑی اونٹنی نکالی اور کہا کہ یہ لے جائو۔ میںنے کہا: میں تو اس کو قبول نہیں کرسکتا۔ البتہ حضورﷺ  خود سفر ہی میں تشریف فرما ہیں اور تمہارے قریب ہی آج منزل ہے۔ اگر تمہارا دل چاہے توبراہِ راست حضورﷺ کی خدمت میں جاکر پیش کردو۔ اگر حضورﷺ نے اجازت دے دی تو میں لے لوںگا۔ وہ صاحب اس اونٹنی کو لے کر میرے ساتھ چل دیے۔ جب ہم حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے تو انھوںنے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے قاصد میرے پاس آئے تھے کہ میری زکوٰۃ لیں اور خدا کی قسم! یہ سعادت مجھے اب سے پہلے کبھی نصیب نہیںہوئی کہ حضورﷺ نے یا حضورﷺ کے قاصد نے کبھی مجھ سے مال طلب کیا ہو۔ میںنے آپ کے قاصد کے سامنے اپنے اونٹ کر دیے، انھوںنے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ان میںایک سالہ اونٹنی واجب ہے۔ حضورﷺ ایک سالہ اونٹنی نہ تو دودھ کا کام دے سکتی ہے نہ سواری کا، اس لیے میں نے ایک بہترین اونٹنی ان کی خدمت میں پیش کی تھی جو یہ میرے ساتھ حاضر ہے۔ انھوںنے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے میں آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔ یارسول اللہ! اس کو قبول ہی فرما لیجیے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم پر واجب تو وہی ہے جو انھوںنے بتایا۔ اگر تم نفل کے طور پر زیادہ عمر کی عمدہ اونٹنی دیتے ہو تو اللہ  تمہیں اس کا اجر دے گا۔ انھوںنے عرض کیا: یا رسول اللہ! میںاسی لیے ساتھ لایا ہوں اس کوقبول فرمالیں۔ حضورﷺ نے اس کے لینے کی اجازت فرما دی۔ (ابوداود)
ان حضرات کے دلوں میں زکوٰۃ کامال ادا کرنے کے یہ ولولے تھے۔ وہ اس پر فخر کرتے تھے، اس کو عزت سمجھتے تھے کہ اللہ کا اور اس کے رسول کا قاصد آج میرے پاس آیا اور میں اس قابل ہوا۔ وہ اس کو تاوان اور بیگار نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اس کو اپنی ضرورت، اپنی غرض اور اپنا کا م سمجھتے تھے۔ ہم لوگ عمدہ مال کویہ سوچتے ہیں کہ اس کو رکھ لیں کہ اپنے کام آئے گا اور یہ حضرات اپنے کام آنا اُسی کو سمجھتے تھے جو اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا ہو۔ حضرت ابو ذر ؓ  کا واقعہ پہلی فصل کی آیات کے ذیل میں نمبر (۱۱) پرگزر چکا کہ جب قبیلہ بنی سُلَیم کے ایک شخص نے آپ کی خدمت میں رہنے کی درخواست کی، تو آپ نے ان سے یہ فرمایا کہ اس شرط پر میرے پاس قیام کی اجازت ہے کہ جب میں کسی کو کوئی چیز دینے کو کہوں تو جو چیز میرے مال میں سب سے عمدہ اور بہتر ہو اس کو چھانٹ کر دینا ہوگا۔ یہ مفصل قصہ گزر چکا ہے  اور آیندہ فصل کی 
Flag Counter