Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

225 - 607

حضورِ اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ وہ شخص صلۂ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو۔ صلۂ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جو دوسرے کے توڑنے پر صلۂ رحمی کرے۔
فائدہ: بالکل ظاہر اور بدیہی بات ہے۔ جب آپ ہر بات میں یہ دیکھ رہے ہیںکہ جیسا برتائو دوسرا کرے گا ویسا ہی میں بھی کروںگا تو آپ نے کیا صلۂ رحمی کی؟ یہ بات تو ہر اجنبی کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ جب دوسرا شخص آپ پر احسان کرے گا تو آپ خود اس پر احسان کرنے پر مجبور ہیں۔ صلۂ رحمی تو درحقیقت یہی ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے بے اِلتفاتی، بے نیازی، قطع تعلق ہو تو تم اس کے جوڑنے کی فکر میں رہو، اس کو مت دیکھو کہ وہ کیا برتائو کرتا ہے۔ اس کو ہر وقت سوچو کہ میرے ذمہ کیا حق ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے۔ دوسرے کے حقوق ادا کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ اس کا کوئی حق اپنے ذمہ رہ جائے جس کا قیامت میں اپنے سے مطالبہ ہو جائے۔ اور اپنے حقوق کے پورا ہونے کا واہمہ بھی دل میں نہ لو، بلکہ اگر وہ پورے نہیں ہوتے تو اور بھی زیادہ مسرور ہو کہ دوسرے عالم میں جو اجر و ثواب اس کاملے گا، وہ اس سے بہت زیادہ ہوگا جو یہاں دوسرے کے ادا کرنے سے وصول ہوتا۔
ایک صحابی نے حضورِ اقدسﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے رشتہ دار ہیں، میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہوں وہ قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان پر احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ہر معاملہ میں تحمل سے کام لیتا ہوں وہ جہالت پر اُترے رہتے ہیں۔ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ سب کچھ صحیح ہے توتُو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے (یعنی خود ذلیل ہوں گے)۔ اور تیرے ساتھ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی مدد شاملِ حال رہے گی جب تک تو اپنی اس عادت پر جمار ہے گا۔ (مشکاۃ المصابیح) اور جب تک اللہ کی مدد کسی کے شاملِ حال رہے نہ کسی کی برائی سے نقصان پہنچ سکتا ہے نہ کسی کا قطع تعلق نفع پہنچنے سے مانع ہوسکتا ہے۔
تُو نہ چُھوٹے مجھ سے یاربّ! تیرا چھٹنا ہے غضب
یوںمیں راضی ہوں مجھے چاہے زمانہ چھوڑ دے
یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کسی کا مددگار ہو جائے تو اس کو کب کسی دوسرے کی کسی مددکی اِحتیاج باقی رہ سکتی ہے۔ پھر ساری دنیا اس کی مجبوراً معین ہے اور ساری دنیا مل کر اس کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
ایک حدیث میں حضورِاقدسﷺ کاا رشاد ہے کہ مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کاحکم فرمایا ہے۔ نمبر۱: حق تعالیٰ شا نہٗ کا خوف ظاہر میں بھی اورباطن میں بھی۔ (یعنی دل سے اور ظاہر سے یا خلوت میں اور جلوت میں) نمبر۲: انصاف کی بات 
Flag Counter