Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

218 - 607
کافی ہے یا نہیں؟ انھوںنے فرمایا: تم خود ہی جاکر دریافت کرلو کہ ان کو اپنی ذات کے لیے دریافت کرنے میں غالبًا حجاب اور خود غرضی کاخیال ہوا ہوگا)۔ حضرت زینبؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاں دروازہ پر دیکھا کہ ایک اور عورت بھی کھڑی ہیں اور وہ بھی یہی مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہیں، لیکن حضورﷺ کے رعب کی وجہ سے دریافت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اتنے میں حضرت بلالؓ آگئے، ا ن دونوں نے ان سے درخواست کی کہ حضورﷺ سے عرض کر دیں کہ دو عورتیں کھڑی ہیں اور یہ دریافت کرتی ہیں کہ اگر وہ اپنے خاوندوں پر اور جو یتیم بچے پہلے خاوندوں سے ان کے پاس ہیں، ان پر صدقہ کر دیں تو یہ کافی ہے؟ حضرت بلالؓ نے حضورﷺ کو پیام پہنچایا حضورﷺ نے دریافت فرمایا: کون عورتیں ہیں؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ ایک فلاں عورت انصاریہ ہیں اور ایک عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ہاںان کے لیے دوگنا ثواب ہے، صدقہ کا بھی اور قرابت کا بھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے کسی بھائی کی ایک دِرَم سے مدد کروں، یہ مجھے زیادہ پسند ہے دوسرے پر بیس دِرَم خرچ کرنے سے۔ اور میں اس پر سو دِرَم خرچ کردوں یہ زیادہ محبوب ہے ایک غلام آزاد کرنے سے۔ (اِحیاء العلوم، اِتحاف)
ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی خود ضرورت مند ہو تو وہ مقدم ہے۔ جب اپنے سے زائد ہو تو عیال مقدم ہے۔ اس سے زائد ہو تو دوسرے رشتہ دار مقدم ہیں۔ ان سے زائد ہو تو پھر ادھر ادھر خرچ کرے۔ (کنز العمال) یہ مضمون ’’کنز العمال‘‘ وغیرہ میں کئی روایات میں ذکر کیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں کو مؤخر کرنا جب ہی ہے جب کہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو اِحتیاج زیادہ ہو۔ اور اگر اپنے سے زیادہ محتاج دوسرے ہوں یا خود باوجود اِحتیاج کے صبر پر قادر ہے اور اللہ پر اعتماد کامل ہے، تو دوسروں کو مقدم کر دیناکمال کا درجہ ہے۔ پہلی فصل کی آیات میں نمبر(۲۸) پر { وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِْم} کے ذیل میں یہ مضمون مفصل گزر چکا ہے۔
حضر ت علیؓارشاد فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اپنا اور (اپنی بیوی حضرت) فاطمہؓ کا جو حضورﷺکی سب سے زیادہ لاڈلی اولاد تھیں قصہ سنائوں؟ وہ میرے گھر رہتی تھیں۔ خود چکی پیستیں جس کی وجہ سے ہاتھوں میں گِٹے پڑ گئے۔ خود پانی بھر کرلاتیں جس کی وجہ سے مشکیزہ کی رگڑ سے بدن پررسی کے نشان پڑ گئے۔ خود گھر میں جھاڑو وغیرہ دیتیں جس سے کپڑے میلے رہتے۔ خود کھانا پکاتیں جس سے دھویں کے اثر سے کپڑے کالے رہتے۔ غرض ہر قسم کی مشقتیں اٹھائی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضورﷺ کے پاس کچھ باندی غلام وغیرہ آئے تو میں نے کہا کہ تم بھی جاکر ایک خادم مانگ لو کہ اس مشقت سے کچھ امن ملے۔ وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاںکچھ مجمع تھا، شرم کی وجہ سے کچھ عرض نہ کرسکیں واپس چلی آئیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ سے عرض کرکے چلی آئیں۔ دوسرے دن حضورﷺ تشریف 
Flag Counter