Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

213 - 607
سے رزق میں بھی وسعت ہوتی ہے۔ ایک صدقہ کی مداومت تھوڑا ہو یا زیادہ، دوسرے صلۂ رحمی پر مداومت چاہے قلیل ہو یا کثیر، تیسرے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چوتھے ہمیشہ باوضو رہنا، پانچویں والدین کی فرماںبرداری پر مداومت کرنا۔ 
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس عمل کا ثواب اور بدلہ سب سے جلدی ملتا ہے وہ صلۂ رحمی ہے۔ بعض آدمی گناہ گارہوتے ہیں لیکن صلۂ رحمی کی وجہ سے ان کے مالوں میں بھی برکت ہوتی ہے اور ان کی اولاد میں بھی۔ (اِحیاء العلوم) ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ طریقہ کے موافق کرنا اورمعروف (بھلائی)کا اختیار کرنا، والدین کے ساتھ احسان کرنااور صلۂ رحمی آدمی کو بدبختی سے نیک بدبختی کی طرف پھیر دیتا ہے، عمر میں زیادتی کا سبب ہے اور بری موت سے حفاظت ہے ۔ (کنز العمال)
عمر میں اور رزق میں زیادتی جتنی کثرت سے روایات میں ذکر کی گئی ہے اس کا نمونہ معلو م ہوگیا۔ اور یہ دونوں چیزیںایسی جن ان پرہر شخص مرتاہے اور دنیا کی ساری کوششیں انہی دو چیزوںکی خاطر ہیں۔ حضورﷺ نے ان دونوں کے لیے بہت سہل تدبیر بتا دی کہ صلۂ رحمی کیاکرے دونوں تمنائیں حاصل ہوںگی۔ اگر حضورﷺ کے ارشاد کے حق ہونے پر یقین ہے تو پھر عمر اور رزق کی زیادتی کے خواہش مندوں کو اس نسخہ پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنا چاہیے اور جو میسر ہو اَقربا پر خرچ کرنا چاہیے کہ رزق میںزیادتی کے وعدہ سے اس کا بدل بھی ملے گا اور عمر میں اضافہ مفت میں ہے۔
۳۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ? قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَۃُ الرَّجُلِ أَھْلَ وُدِّ أَبِیْہِ بَعْدَ أَنْ یُّوَلِّيَ۔ 
رواہ مسلم، کذا في المشکاۃ۔


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ تعلقات رکھنے والوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔
فائدہ: چلے جانے سے مراد عارضی چلا جانا بھی ہوسکتا ہے اور مستقل چلا جانا یعنی مرجانا بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ درجہ بڑھا ہوا اس لیے ہے کہ زندگی میں تو اس کے دوستوں کے ساتھ حسنِ سلوک میںاپنی ذاتی اَغراض کا شائبہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے ساتھ تعلق کی قوت اوراچھا سلوک ان اَغراض کے پورا ہونے میں معین ہوگا جو والد سے وابستہ ہیں، لیکن باپ کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنا اپنے ذاتی اَغراض سے بالاتر ہوتا ہے، اس میں باپ ہی کا احترام خالص رہ جاتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے ابنِ دینار ؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمر? مکہ کے راستہ میں تشریف لے جا رہے تھے، راستہ میںایک 
Flag Counter