Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

205 - 607
عرض کیا کہ حضور کا ارشاد سن کر میں اپنی خالہ کے پاس گیا تھا، اس نے مجھ سے قطع تعلق کر رکھا تھا۔ میرے جانے پر اس نے کہا کہ تُو خلافِ عادت کیسے آگیا؟ میں نے آپ کا ارشاد مبارک سنایا، اس نے میرے لیے دعائے مغفرت کی، میں نے اس کے لیے دعائے مغفرت کی ( اور آپس میں صلح کرکے واپس حاضر ہوگیا )۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے بہت اچھا کیا، بیٹھ جائو۔ اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا ہو۔
فقیہ ابواللیث ؒ نے اس کو نقل کیا ہے، لیکن صاحب ’’ِکنز‘‘ نے اس کے ایک راوی کے متعلق ابنِ مَعین سے کِذب کی نسبت نقل کی ہے۔ (کنز العمال) فقیہ ابو للیث  ؒ فرماتے ہیں: اس قصہ سے معلوم ہوا کہ قطع رحمی اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے پاس بیٹھنے والے بھی اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہو وہ اس سے توبہ کرے اور صلۂ رحمی کا اہتمام کرے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ کوئی نیکی جس کا ثواب بہت جلد ملتا ہو صلۂ رحمی سے بڑھ کر نہیں۔ اور کوئی گناہ جس کا وبال دنیا میں اس کے علاوہ ملے جو آخرت میں ملے گا قطع رحمی اور ظلم سے بڑھ کر نہیں ہے۔ (تنبیہ الغافلین)
متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ قطع رحمی کاوبال آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی پہنچتا ہے اور آخرت میںبرے ٹھکانہ کا تو خود اس آیتِ شریفہ ہی میں ذکر ہے۔ فقیہ ابوللیث ؒ نے ایک عجیب قصہ لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک نیک شخص امانت دار خراسان کے رہنے والے تھے۔ لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوایا کرتے تھے۔ ایک شخص ان کے پاس دس ہزار اشرفیاں امانت رکھوا کر اپنی کسی ضرورت سے سفر میں چلا گیا۔ جب وہ سفر سے واپس آیا تو اس خراسانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے اہل و عیال سے اپنی امانت کاحال پوچھا، انھوںنے لاعلمی ظاہر کی۔ ان کو بڑافکر ہوا کہ بہت بڑی رقم تھی۔ علمائے مکہ مکرمہ سے کہ اتفاق سے اس وقت ایک مجمع ان کاموجود تھا، مسئلہ پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ انھوںنے کہا کہ وہ آدمی تو بہت نیک تھا، ہمارے خیال میں جنتی آدمی تھا۔ تُو ایک ترکیب کر۔ جب آدھی یاتہائی رات گزر جائے توزمزم کے کنویں پرجا کر اس کانام لے کر پکار کے اس سے دریافت کر۔ اس نے تین دن تک ایسا ہی کیا۔ وہاں سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھر جاکر ان علما سے تذکرہ کیا، انھوںنے إِنَّا لِلّٰہِ پڑھا اور کہا کہ ہمیں تو یہ ڈر ہوگیا کہ وہ شاید جنتی نہ ہو، تو فلاں جگہ جا وہاں ایک وادی ہے جس کا نام برہوت ہے۔ اس میں ایک کنواں ہے،اس کنویں پر آواز دے اس نے ایسا ہی کیا۔ وہاںسے پہلی ہی آواز میں جواب ملا کہ تیرا مال ویسا ہی محفوظ رکھا ہے۔ مجھے اپنی اولاد پراطمینان نہ ہوا، اس لیے میں نے فلاں جگہ مکان کے اندر اس کوگاڑ دیا ہے۔ میرے لڑکے سے کہہ کہ تجھے اس جگہ پہنچا دے، وہاں سے زمین کھود کر اس کو نکال لے۔ چناں چہ اس نے ایسا ہی کیا اور مال مل گیا۔ اس شخص نے وہاں بہت تعجب سے اس سے 
Flag Counter