Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

203 - 607
۴: بے وقوف کے پاس نہ لگنا کہ وہ تجھے نفع پہنچانے کا ارادہ کرے گا تب بھی اپنی حماقت سے نقصان پہنچا دے گا۔ مثل مشہور ہے کہ دانا دشمن نادان دوست سے بہتر ہے۔ نمبر۵: قطع رحمی کرنے والے کے پاس نہ جائیو کہ میں نے قرآنِ پاک میں تین جگہ اس پر اللہ کی لعنت پائی ہے۔ (روض الریاحین)
۲۔ وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوَْنَ مَآ اَمَر َاللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِط اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوٓئُ الدَّارِo (الرعد : ع ۳)


اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے معاہدہ کو اس کی پختگی کے بعد توڑتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے  جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم فرمایا ان کو توڑتے ہیں، اور دنیا میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے اس جہان میں خرابی ہے۔
فائدہ: حضرت قتادہ  ؒ سے نقل کیا گیا کہ اس سے بہت احتراز کرو کہ عہد کرکے توڑ دو۔ اللہ  نے اس کو بہت ناپسند کیا ہے اور بیس آیتوں سے زائد میں اس پر وعید فرمائی ہے، جو نصیحت کے طور پر اور خیر خواہی کے طور پر اور حجت قائم کرنے کے لیے وارد ہوئی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللہ نے عہدکے توڑنے پر جتنی وعیدیں فرمائی ہیں اس سے زائد کسی اور چیز پرفرمائی ہوں۔ پس جو شخص اللہ کے واسطہ سے عہد کرلے اس کو ضرور پورا کرے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ جو شخص امانت کو واپس نہ کرے اس کاایمان ہی نہیں اور جو عہد کو پورا نہ کرے اس کا دین نہیں۔ حضرت ابو امامہ اور حضرت عبادہ ? سے بھی یہ مضمون نقل کیا گیا۔ (دُرِّمنثور)
حضرت میمون بن مہران ؒ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں کافر مسلمان کی کوئی تفریق نہیں، سب کا حکم برابر ہے۔ اوّل جس سے معاہدہ کیا جائے اس کو پورا کیا جائے، چاہے وہ معاہدہ کافر سے کیا ہو یا مسلمان سے۔ اس لیے کہ عہد حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے ہے۔ دوسرے جس سے رشتہ کا تعلق ہو اس کی صلۂ رحمی کی جائے، چاہے وہ رشتہ دار مسلمان ہو یا کافر۔ تیسرے جو شخص امانت رکھوائے اس کی امانت واپس کی جائے، امانت رکھوانے والا مسلمان ہو یا کافر ہو۔ (تنبیہ الغافلین)
قرآن پاک میں بہت سی آیات کے علاوہ ایک جگہ خاص طور سے اسی کا حکم ہے:
{وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo}     (بني إسرائیل: ع۴)


Flag Counter