Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

198 - 607
بہت مسرت ہوئی اور اسلام میرے دل میں جم گیا۔ میں وہاں سے اٹھ کر حضورﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس گیا (جومسلمان نہ تھے) ا ن سے جاکر میں نے کہا کہ میں تمہارے بھتیجے کے پاس تھا، ان پر اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) کا اِتباع کرو فلاح کوپہنچو گے۔ خدا کی قسم! وہ اپنی نبوت کے دعویٰ میں سچے ہوں یا جھوٹے، لیکن تمہیں تو اچھی عادتوں کی ہی تعلیم اور کریمانہ اخلاق سکھاتے ہیں۔ (تنبیہ الغافلین) یہ ایسے شخص کی نصیحت ہے جو خود مسلمان بھی نہیں ہیں  کہ وہ بھی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ نبوت کا دعویٰ سچا ہو یا جھوٹا لیکن اسلام کی تعلیم بہترین تعلیم ہے، وہ کریمانہ اخلاق سکھاتی ہے، مگر افسوس کہ آج ہم مسلمانوں ہی کے اخلاق سب سے زیادہ گرے ہوئے ہیں۔
۲۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوْا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْآ اُولِیْ الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ص وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo      (النور : ع۳)	       
یہ آیتِ شریفہ اور اس کاترجمہ پہلی فصل کے نمبر (۱۸) پر گزر چکا ہے ۔ مجھے اس کے اِعادہ سے اس پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ہم لوگ اپنے ان اَسلاف کے معمولات پربھی غور کریں اور حق تعالیٰ شا نہٗ کی اس ترغیب پر بھی۔ کتنا سخت اور اہم واقعہ ہے کہ حضور ﷺکی بیوی، سارے مسلمانوں کی ماں، ان پر اولاد کی طرف سے بے بنیاد تہمت لگائی جائے اور اس کو پھیلاتے وہ قریبی رشتہ دار ہوں جن کا گزر اوقات بھی ان کے باپ ہی کی اِعانت پر ہو، اس پر باپ یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓکو جس قدر بھی رنج اور صدمہ ہو وہ ظاہر ہے، اس پر اللہ کی طرف سے یہ ترغیب کہ معاف کریں اور درگزر کریں، اور حضرت صدیقًؓؐ کی طرف سے یہ عمل کہ جتنا پہلے خرچ کرتے تھے اس میں اضافہ فرمایا، جیسا کہ پہلے گزر چکا،کیا ہم بھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ایسا معاملہ کرسکتے ہیں کہ کوئی ہم پر الزام رکھے، ہمارے گھر والوں کو ایسی سخت چیز کے ساتھ متہم کرے، اور پھر ہم قرآنِ پاک کی اس آیتِ شریفہ کو تلاوت کریں اور اس رشتہ دار کی قرابت پر نگاہ رکھتے ہوئے کسی قسم کی اِعانت اس کی گوارہ کرلیں؟ حاشا وکلَّا! عمر بھر کی اسی سے نہیں اس کی اولاد سے بھی دشمنی بندھ جائے گی، بلکہ جو دوسرے رشتہ دار اس سے تعلق رکھیں گے ان کا بھی بائیکاٹ کر دیں گے اور جس کسی تقریب میں وہ شریک ہوں گے مجال ہے کہ ہم اس میں شرکت کرلیں۔ کیوں؟ فقط اس لیے کہ یہ لوگ ایسے شخص کی تقریب میںیا دعوت میں شریک ہوگئے جس نے ہمیں گالی دے دی، ہماری آبرو گرادی، ہماری بہو بیٹی پر تہمت لگا دی، چاہے لوگ اس گالی دینے والے کے فعل سے کتنے ہی ناراض ہوں، مگر اس کی تقریب میں شرکت کے جرم میں ان سے بھی ہمارا قطع تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد یہ ہے کہ ہم خود بھی اس کی اِعانت سے ہاتھ نہ روکیں اورہمارا عمل یہ ہے کہ کوئی دوسرا بھی اس کی دعوت کر دے تو ہم اس دوسرے سے بھی تعلقات منقطع کر دیں، لیکن جن کے دل میں حقیقی ایمان ہے، اللہ کی عظمت ان میں راسخ 
Flag Counter