Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

191 - 607
بیاض کی عبارت عربی ہے یہ اس کاترجمہ ہے۔ اور صحیح ہے کہ اس زمانہ میں فتوحات کی کثرت سے عام طور پر ان حضرات کی مالی حالت ایسی ہی تھی۔ دنیا اور ثروت ان کے جوتوں سے لپٹتی تھی یہ اس کو پھینکتے تھے اور وہ ان کو چمٹتی تھی، لیکن ان سب کے باوجود اس کے ساتھ اس کی دل بستگی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغولی کیا تھی۔ ’’ فضائل نماز ‘‘ اور ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں ان حضرات کے کچھ واقعات ذکر کیے گئے ہیں، ان کو عبرت اور غور سے دیکھو۔ یہی عبداللہ بن زبیر? اپنی اس دولت کے ساتھ جب نماز کو کھڑے ہوتے تو جیسے ایک کیل کہیں گاڑ دی ہو۔ سجدہ اتنا لمبا ہوتا کہ چڑیاں کمر پر آکر بیٹھ جاتیں اور حرکت کا ذکر نہیں۔ جس زمانہ میں ان پر چڑھائی ہو رہی ہوتی اور ان پرگولہ باری ہو رہی تھی، نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک گولہ مسجد کی دیوار پرلگا جس سے اس کاایک حصہ گرا۔ ان کی داڑھی کے پاس سے گزرا، مگر ان کو اس کا پتہ بھی نہ چلا۔
ایک صحابی کاباغ کھجوروں کا خوب پک رہا تھا۔ یہ اس باغ میںنماز پڑھ رہے تھے۔ نماز میں باغ کا خیال آگیا اس کا رنج اور صدمہ اس قدر ہوا کہ نماز کے بعد فوراً باغ کو حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں، جو اس وقت امیر المؤمنین تھے، پیش کر دیا۔ انھوں نے پچاس ہزار میںا س کو فروخت کرکے اس کی قیمت دینی کاموں میں خرچ کر دی۔ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں دوبوریاں دِرَم کی نذرانہ میں آئیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ دِرَم تھے۔ طباق منگا کر اور بھر بھر کر سب تقسیم کر دیں۔ اپنا روزہ تھا یہ بھی خیال نہ آیاکہ اپنے افطار کے لیے کچھ رکھ لیں یا کوئی چیز منگا لیں۔ افطار کے وقت جب باندی نے افسوس کیا کہ اگر ایک دِرَم کا گوشت منگا لیتیں تو آج ہم بھی گوشت سے کھانا کھالیتے، تو فرمایا: اب افسوس سے کیا ہوتا ہے؟ جب یاد دلا دیتی تو میں منگا دیتی۔
’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں یہ اور اس قسم کے چند واقعات ذکر کیے گئے۔ ان کے علاوہ ہزاروں واقعات ان حضرات کی تاریخ میں موجود ہیں۔ اُن کو مال کیا نقصان دے سکتا ہے جن کے نزدیک اس میں اور گھر کے کوڑے میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔ کاش! اللہ اس صفت کا کوئی شمّہ اس ناپاک کو بھی عطا کر دیتا۔
یہاں ایک بات خاص طور سے قابلِ لحاظ ہے۔ وہ یہ کہ ان حضرات متمول صحابہ کرام? کے ان احوال سے مال کی کثرت کے جواز پر استدلال تو ہوسکتا ہے کہ خیرالقرون اور خلفائے راشدین?کے دور میںیہ مثالیں بھی ملتی ہیں، لیکن ہم لوگوں کو اس زہر کے اپنے پاس رکھنے میں ان کے اِتباع کو آڑ بنانا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی تپِ دق کابیمار کسی جوان، قوی، تندرست کے اِتباع میںروزانہ صحبت کیا کرے کہ وہ تین چار دن میں قبر کا گڑھا ہی دیکھے گا۔ رسالہ کے ختم پر حکایات کے سلسلہ میں نمبر (۵۴) پر ایک عارف کا ارشاد غور سے دیکھنا چاہیے۔ امام غزالی  ؒ فرماتے ہیں کہ مال بہ منزلہ ایک سانپ کے ہے 
Flag Counter