Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

190 - 607
کی سختی سے ممانعت کر دیتے ہیں۔ ٹوکرے کے ٹوکرے ضائع کرا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اگر معمولی حکیم یا ڈاکٹرکسی چیز کو مضر بتاتا ہے توطبعاً ہمارے قلوب اس سے ڈرنے لگتے ہیں۔ چناںچہ ڈاکٹروں کے ان اعلانات کے بعد اچھے اچھے سورمائوں کی ہمت امرود کھانے کی نہیں رہتی، لیکن وہ ہستی جس کے جوتوںکی خاک تک بھی کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں پہنچ سکتا، جس کی تجویزات نورِ نبوت سے مستفاد ہیں، اس کے اعلان پر، اس کی تجویز پر ذرا بھی خوف پیدا نہ ہو۔ حضورِ اقدسﷺ جب بار بار اس کے فتنوں اور اس کی مضرتوں پر تنبیہ فرمارہے ہیں تو یقینا ہر شخص کو بہت زیادہ اس کی مضرتوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس کے استعمال کے لیے شرعی قوانین کے ماتحت جو اس کے لیے ایسے ہیں جیسا کہ امرود کے لیے نمک، مرچ، لیموں وغیرہ مُصلِحات ہیں، ان کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کابہت زیادہ اس میں فکر کرتے رہنا چاہیے۔ خود حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ غنیٰ میں اس شخص کے لیے نقصان نہیں جو اللہ سے ڈرتا رہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
میرے نسبی بزرگوں میں مفتی الٰہی بخش کاندھلوی، مشہور فقیہ حضرتِ اقدس مرجع الکل شاہ عبدالعزیز دہلوی نور اللہ مرقدہ کے خاص شاگردہیں۔ ان کی بیا ض میں اُن کے شیخ کی بیاض سے نقل کیا ہے کہ دنیا (یعنی مال) آدمی کے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ کی مرضیات پر عمل کرنے کے لیے بہترین مدد ہے۔حضورِاقدسﷺ نے جب لوگوں کوحق تعالیٰ شا نہٗ کی طرف بلایا تو ان چیزوں کے چھوڑ دینے کا حکم نہیں فرمایا، بلکہ اسبابِ معیشت اوراہل و عیال کی خدمت کی ترغیب دی۔ لہٰذا مال کا اور اپنے اہل و عیال میںرہنے کا انکار ناواقف شخص ہی کرسکتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے وصال کے وقت ان کے خزانچی کے پاس ایک لاکھ پچاس اشرفیاں او ر دس لاکھ درہم تھے، اور جائیداد خیبر، وادیٔ قریٰ وغیرہ کی تھی، جس کی قیمت دو لاکھ دینار تھے۔ اور حضرت عبداللہ بن زبیر? کے مال کی قیمت پچاس ہزار دینار تھی اور ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار غلام چھوڑے تھے۔ اور عمرو بن العاصؓ نے تین لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے مال کا توشمار ہی مشکل ہے۔ اس کے باوجود حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان کی تعریف قرآن پاک میں فرمائی:
{ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ }(الکہف:ع ۴)
’’اپنے رب کی عبادت صبح و شام (یعنی ہمیشہ) محض اس کی ر ضا جوئی کے واسطے کرتے ہیں۔‘‘
اور ارشاد ہے۔
{رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ} (النور:ع ۵)
’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کو تجارت وغیرہ اللہ کے ذکر سے نہیںروکتی۔‘‘ فقط
Flag Counter