Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

189 - 607
اور دو ہوں تو تیسری کو تلاش کرتا ہے۔ آدمی کاپیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرسکتی۔ (بخاری)
مٹی سے بھرنے کا مطلب یہ ہے کہ قبر کی مٹی میں جاکر ہی وہ اپنی اس ھَلْ مِنْ مَّزِیْدکی خواہش سے رک سکتا ہے۔ دنیا میں رہتے رہتے تو ہر وقت اس پر اِضافہ اورزیادتی کی فکر رہتی ہے۔ ایک کارخانہ اچھی طرح چل رہا ہے، اس میں بقدرِضر ورت آمدنی ہو رہی ہے، کہیں کوئی دوسری چیز سامنے آگئی اس میںبھی اپنی ٹانگ اڑا دی۔ ایک سے دو ہو گئیں، دو سے تین ہوگئیں، غرض جتنی آمدنی بڑھتی جائے گی، اس کو مزید کاروبار میں لگانے کی فکر رہے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ اس پر قناعت کرکے کچھ وقت اللہ کی یاد میں مشغولی کا نکل آئے۔ اسی لیے حضورِاقدسﷺ نے دعا فرمائی ہے: 
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا۔ 
(اے اللہ! میری اولاد کا رزق قُوت ہو) یعنی بقدرِ کفایت ہو، زائد ہو ہی نہیں جس کے چکر میں میری اولاد پھنس جائے۔
ایک حدیث میں حضورﷺ کاارشاد ہے کہ بہتری اور خوبی اس شخص کے لیے ہے جو اسلام عطا کیا گیا ہو اور اس کا رزق بقدرِ کفایت ہو اور اس پر قانع ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ کوئی فقیر یا غنی قیامت میں ایسا نہ ہوگا جواس کی تمنا کرتا ہو کہ دنیا میںاس کی روزی صرف قُوت (یعنی بقدرِکفایت) ہوتی۔ (اِحیاء العلوم)
’’بخاری شریف‘‘ کی حدیث میں ہے حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ خدا کی قسم! مجھے تمہارے اوپر تمہارے فقرو فاقہ کا خوف نہیں ہے، بلکہ اس کا خوف ہے کہ تم پر دنیا کی وسعت ہوجائے جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر ہو چکی ہے، پھر تمہارا اس میں دل لگنے لگے جیسا کہ ان کا لگنے لگا تھا، پس یہ چیز تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ پہلی امتوں کو کرچکی ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات میں مختلف عنوانات سے مختلف قسم کی تنبیہات سے مال کی کثرت اور اس کے فتنہ پرمتنبہ فرمایا۔ اس لیے نہیںکہ مال في حدّ ذاتہٖ کوئی ناپاک یا عیب کی چیز ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ ہم لوگو ں کے قلوب کے فساد کی وجہ سے بہت جلد ہمارے دلوںمیں مال کی وجہ سے تعفّن اور بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مضرتوں سے بچتے ہوئے، اس کی زیادتی سے اِحتراز کرتے ہوئے، شرائط کے ساتھ اس کو استعمال کرے تو مضر نہیں بلکہ مفید ہو جاتا ہے، لیکن چوںکہ عام طور سے نہ شرائط کی رعایت ہوتی ہے نہ اصلاح کی فکرہوتی ہے، اس بنا پر یہ اپنا زہریلا اثر بہت جلد پیدا کر دیتا ہے۔
اس کی بہترین مثال ہیضہ کے زمانہ میں امرود کا کھانا ہے کہ في حدّ ذاتہٖ امرود کے اندر کوئی عیب نہیں، اس کے جو فوائد ہیں وہ اب بھی اس میں موجود ہیں، لیکن ہوا کے فساد کی وجہ سے اس کے استعمال سے، بالخصوص کثرتِ استعمال سے بہت جلد اس میں تغیر پیدا ہوکر مضرت اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے علی العموم ڈاکٹر ہیضہ کے زمانہ میں امرودوں 
Flag Counter