Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

184 - 607
النَّبِيَّ ﷺ یَاْکُلُہُ، فَوَضَعَتْہُ فِيْ کُوَّۃِ الْبَیْتِ وَجَائَ سَائِلٌ فَقَامَ عَلَی الْبَابِ فَقَالَ: تَصَدَّقُوْا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکُمْ! فَقَالُوْا: بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ فَذَھَبَ السَّائِلُ۔ فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: یَا أُمَّ سَلَمَۃَ! ھَلْ عِنْدَکُمْ شيئٌ أَطْعَمُہُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ۔ قَالَتْ: لِلْخَادِمِ اِذْھَبِيْ فَأْتِيْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ بِذٰلِکَ اللَّحْمِ۔ فَذَھْبَتْ فَلَمْ تَجِدْ فِيْالْکُوَّۃِ إِلاَّ قِطْعَۃَ مَرْوَۃٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: فَإِنَّ ذٰلِکَ اللَّحْمَ عَادَ مَرْوَۃً لِمَا لَمْ تُعْطُوْہُ السَّائِلَ۔ 
رواہ البیھقي في دلائل النبوۃ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کی خدمت میں کسی شخص نے گوشت کا ایک ٹکڑا (پکا ہوا) ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ چوںکہ حضورِاقدسﷺکو گوشت کا بہت شوق تھا اس لیے حضرت ام سلمہؓ نے خادمہ سے فرمایا کہ اس کو اندر رکھ دے شایدکسی وقت حضورﷺ نوش فرمالیں۔ خادمہ نے اس کو اندر طاق میں رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک سائل آیا اور دروازے پر کھڑے ہو کر سوال کیا کہ کچھ اللہ کے واسطے دے دو، اللہ تمہارے یہاں برکت فرمائے۔ گھر میں سے جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے۔ (یہ اشارہ تھا کہ کوئی چیز دینے کے لیے موجود نہیں) وہ سائل تو چلاگیا اتنے میں حضورِاقدسﷺ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ ام سلمہ! میں کچھ کھانا چاہتا ہوں، کوئی چیز تمہارے یہاں ہے؟ 
حضرت ام سلمہؓ نے خادمہ سے فرمایا کہ جائووہ گوشت حضورﷺکی خدمت میں پیش کرو۔ وہ اندر گئیں اور جاکر دیکھا کہ طاق میں گوشت تو ہے نہیں، سفیدپتھر کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا ہے۔ (حضورِ اقدسﷺکو واقعہ معلوم ہوا تو) حضورﷺ نے فرمایا: تم نے وہ گوشت چوںکہ سائل (فقیر) کو نہ دیا اس لیے وہ گوشت پتھر کا ٹکڑا بن گیا۔
فائدہ: بڑی عبرت کامقام ہے۔ ازواجِ مطہرّات کی سخاوت اور فیاضی کا کوئی کیامقابلہ کرسکتا ہے۔ ایک ٹکڑا گوشت کا اگر انھوں نے ضرورت سے روک لیا اور وہ بھی اپنی ضرورت سے نہیں بلکہ حضورِاقدسﷺ کی ضرورت سے روکا، تواس کا یہ حشر ہوا۔ اور یہ بھی حقیقتاً اللہ کا خاص لطف وکرم حضورﷺ کے گھر والوں کے ساتھ تھا کہ اس گوشت کا جو اثر فقیر کو نہ دینے سے ہوا، وہ حضورﷺ کی برکت سے اپنی اصلی حالت میںگھروالوں پر ظاہرہوگیا،جس کا مطلب یہ ہوا کہ ضرورت مند سے بچاکر اور انکار کرکے جو شخص کھاتا ہے وہ اثر اور ثمرہ کے اعتبار سے ایسا ہے جیسا کہ پتھر کھالیا ہو کہ اس سے اس چیز کا اصل فائدہ حاصل نہ ہوگا، بلکہ سخت دلی اور منافع سے محرومی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ بہت سی اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی نعمتیں کھاتے ہیں، لیکن ان سے وہ فوائد بہت کم حاصل ہوتے ہیں جو ہونے چاہئیں اورکہتے ہیں کہ چیزوں میں اثر نہیں رہا۔ حالاںکہ حقیقت میں اپنی نیتیں خرا ب ہیں اس لیے بدنیتی سے فوائد میں کمی ہوتی ہے۔
Flag Counter