Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

179 - 607
ایک حدیث میں ہے کہ جو کسی وارث کی میراث کوقطع کرے اللہ اس کی میراث کو جنت سے قطع کرے گا۔ (مشکاۃ المصابیح) لہٰذا ا س کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ وصیت اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے میں یہ ارادہ اور نیت ہرگز نہ ہو کہ کہیں فلاں وارث نہ بن جائے، بلکہ ارادہ اور نیت اپنی ضرورت کا پورا کرنا، اپنے لیے ذخیرہ بنانا ہو۔ آدمی کے ارادہ اور نیت کو عبادات میں بہت زیادہ دخل ہے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد جو بہت زیادہ مشہور ہے: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِکہ اعمال کامدار نیت اور ارادہ پرہے۔ نماز جیسی اہم عبادت اللہ کے واسطے پڑھی جائے تو کتنی زیادہ موجب ِاجر، موجب ِثواب، موجب ِقُربت کہ کوئی دوسری عبادت اس کے برابر نہیں۔ یہی چیز ریاکاری اور دکھاوے کے واسطے پڑھی جائے توشرکِ اصغر اور وبال بن جائے۔ اس لیے خالص نیت اللہ کی رضا اور اپنی ضروت میں کام آناہونا چاہیے جس کی بہترین صورت یہ ہے کہ اپنی زندگی میں، اپنی تندرستی میں، اس حالت میں جب کہ یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میں پہلے مروںگا یا و ارث پہلے مرجائے گا،اور کون وارث ہوگا اورکون نہ ہوگا، ایسے وقت میں خرچ کرے اور خوب خرچ کرے، جتنا زیادہ سے زیادہ صدقہ کرسکتا ہے کرے۔ وصیت کرے، وقف کرے اور جن مواقعِ خیر میں زیادہ ثواب کی امید ہو ان کی فکرو جستجو میں رہے۔ یہ نہیں کہ اپنے وقت میں تو بخل کرے اور جب مرنے لگے تو سخی بن جائے، جیسا کہ حضورﷺ کا پاک ارشاد پہلی فصل کی احادیث میں نمبر(۵) پرگزر چکا کہ افضل صدقہ وہ ہے جو حالتِ صحت میں کیا جائے، نہ یہ کہ جب جان نکلنے لگے تو کہے کہ اتنا فلاں کا،اتنا فلاں کا، حالاںکہ مال فلاں کا (یعنی وارث کا) ہوگیا۔
خوب سمجھ لو! میں سب سے پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرتا ہوں، اس کے بعد اپنے دوستوں کو کہ ساتھ جانے والا صرف وہی مال ہے جس کو اللہ کے بینک میں جمع کر دیا۔ اور جس کو جمع کرکے اور خوب زیادہ بڑھا کر چھوڑ دیا وہ اپنے کام میں نہیں آتا۔ بعد میں نہ کوئی ماں باپ یاد رکھتا ہے، نہ بیوی اولاد پوچھتے ہیں  إِلاَّ مَا شَائَ اللّٰہُ۔ اپنا ہی کیا اپنے کام آتا ہے۔ ان سب کی ساری محبتوں کا خلاصہ دو چار دن ہائے ہائے کرنا ہے اور پانچ سات مفت کے آنسو بہانا ہے۔ اگر ان آنسوئوں میں بھی پیسے خرچ کرنا پڑیں تو یہ بھی نہ رہیں۔
یہ خیال کہ اولاد کی خیرخواہی سے مال کو جمع کرکے چھوڑنا ہے، نفس کا محض دھوکا ہے۔ صرف مال جمع کرکے ان کے لیے چھوڑ جانا، ان کے ساتھ خیر خواہی نہیں ہے، بلکہ شاید بدخواہی بن جائے۔ اگر واقعی اولاد کی خیر خواہی مقصود ہے، اگر واقعی یہ دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے مرنے کے بعد پریشان حال، ذلیل و خوار نہ پھریں، تو ان کو مال دار چھوڑنے سے زیادہ ضروری ان کو دین دار چھوڑنا ہے کہ بددینی کے ساتھ مال بھی اوّلاً ان کے پاس باقی نہ رہے گا، چند یوم کی لذات و شہوات میں اڑ جائے گا اور اگر رہا بھی تو اپنے کسی کام کا نہیں ہے۔ اور دین داری کے ساتھ اگر مال نہ بھی ہو تو ان کی دین داری ان 
Flag Counter