Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

178 - 607
حضورﷺ نے فرمایا: تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: حضور! یہ کس طرح؟ حضورﷺ نے فرمایا: تمہارا مال و ہ ہے جو آگے بھیج دیا اوروارث کا مال و ہ ہے جوپیچھے چھوڑ گیا۔ (کنز العمال) 
یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ان روایات کا مقصد وارثوں کو محروم کرنا نہیں ہے۔ حضورِ اقدسﷺ نے خود اس پر تنبیہ فرمائی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فتح مکہ کے زمانہ میں ایسے سخت بیمارہوئے کہ زِیست کی امید نہ رہی۔ حضورﷺ عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو انھوں نے عرض کیا کہ حضور! میرے پاس مال زیادہ ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے سارے مال کی وصیت کروں (کہ اس وقت ان کی اولاد صرف ایک بیٹی ہی تھی اور اس کاتکفُّل اس کے خاوند کے ذمہ)۔ حضورﷺ نے منع فرما دیا۔ انھوں نے دو تہائی کی اجازت چاہی، حضورﷺ نے اس کا بھی انکار کر دیا۔ پھرنصف کی درخواست بھی قبول نہ فرمائی تو انھوں نے ایک تہائی وصیت کی اجازت چاہی۔ حضورﷺ نے اس کی اجازت فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔ تم اپنے وارثوں کو (یعنی مرنے کے وقت جو بھی ہوں، چناںچہ اس واقعہ کے بعد اور بھی اولاد ہوگئی تھی) غنی چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ جو خرچ اللہ کے واسطے کیا جائے وہ ثواب کا موجِب ہے، حتیٰ کہ اللہ کے لیے اگر ایک لقمہ بیوی کو دیا جائے تواس پر بھی اجر ہے۔ (مشکوۃ المصابیح عن الصحیحین)
حافظ ابنِ حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سعدؓ کا یہ قصہ پہلی حدیث یعنی ’’تم میںسے کون ایسا ہے کہ اس کو وارث کا مال محبوب ہو‘‘ کے منافی نہیں، اس لیے کہ اس حدیث کا مقصد اپنی صحت اور ضرورت کے وقت میں صدقہ کرنے کی ترغیب ہے۔ اور حضرت سعد ؓ کے قصہ میں مرض الموت میںسارا یا اکثر حصہ مال کا وصیت کرنا مقصود ہے۔ (فتح الباری) بندۂ ناکارہ کے نزدیک صرف یہی نہیں، بلکہ وارثوں کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے وصیت کرنا موجِبِ عتاب و عقاب ہے۔ حضور ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ بعض مرد اور عورت اللہ کی فرماںبرداری میں ساٹھ سال گزارتے ہیں اور جب مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت میں نقصان پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے جہنم کی آگ ان کے لیے ضروری ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی تائید میں حضرت ابوہریرہؓ نے قرآنِ پاک کی آیت {مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَا اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ} (النساء :ع ۲) پڑھی، جس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ اوپرکی آیت میں جو ورثہ کو تقسیمِ مال کی تفصیل بیان ہوئی ہے وہ وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد ہے۔ اور اگر اس کے ذمہ قر ض ہے تو قرض کی مقدار بھی وضع کرنے کے بعد، اس حال میں کہ وصیت کرنے والا کسی وارث کو ضرر نہ پہنچائے۔
Flag Counter