Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

175 - 607
حضورﷺکی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ استنجے کے لیے جنگل میں تشریف لے جایا کرتے۔ کسی باغ میں یا کسی ٹیلہ وغیرہ کی آڑ میں ضرورت سے فراغت حاصل کرتے۔ ایک مرتبہ اس ضرورت سے ایک باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک اونٹ تھا، جو حضورﷺکو دیکھ کر بِڑانے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے (ایک معرو ف چیز ہے کہ ہر مصیبت زدہ کا کسی غم خوار کو دیکھ کر دل بھر آیاکرتا ہے)۔ حضورﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے، اس کے کانوں کی جڑ پر شفقت کا ہاتھ پھیرا جس سے وہ چپکا ہوا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری تشریف لائے اور عرض کیا کہ میرا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم اس اللہ سے جس نے تمہیں اس کا مالک بنایا، ڈرتے نہیں ہو؟ اونٹ تمہاری شکایت کرتا ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو۔ ایک اور حدیث میںہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے ایک گدھے کو دیکھا کہ اس کے منہ پر داغ دیاگیا۔ حضورﷺنے فرمایا کہ تم کو اب تک یہ معلوم نہیں کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانور کے منہ کو داغ دے یا منہ پر مارے۔
’’ابوداود شریف‘‘ میں یہ روایات ذکر کی گئیں۔ ان کے علاوہ اور بھی مختلف روایات میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ جانوروں کی خبر گیری میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اور جب جانوروں کا یہ حال ہے اور ان کے بارے میں یہ تنبیہات ہیں تو آدمی جو اشرف المخلوقات ہے،اس کا حال اَظہر ہے اور زیادہ اہم ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے گناہ کے لیے یہ کافی ہے کہ جس کی روزی اپنے ذمہ ہے اس کو ضائع کرے۔ اس کے لیے اگر کسی جانور کو اپنی کسی ضرورت سے روک رکھا ہے تواس کے کھانے میں کنجوسی کرنااور یہ سمجھنا کہ کون جانے کس کو خبر ہوگی، اپنے اوپر سخت ظلم ہے۔ جاننے والا سب کچھ جانتا ہے اور لکھنے والے ہر چیز کی رپورٹ لکھتے ہیں، چاہے کتنی ہی مخفی کی جائے۔ اور یہ آفت بخل سے آتی ہے کہ جانوروں کو اپنی ضرورت سے، سواری کی ہو یا کھیتی کی، دُودھ کی ہو یا کوئی اور کام لینے کی ہو پالتے ہیں، لیکن کنجوسی سے ان پر پیسہ خرچ کرتے ہوئے دَم نکلتا ہے۔
۹۔ عَنْ أَنَسٍؓ عَنِ النَّبِيّ ﷺ قَالَ: یُجَاؤُ بِابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأنَّہٗ  بَذْجٌ، فَیُوْقَفُ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ لَہُ: أَعْطَیْتُکَ وَخَوَّلْتُکَ وَأَنْعَمْتُ عَلَیْکَ فَمَا صَنَعْتَ؟ فَیَقَُوْلُ: یَا رَبِّ! جَمَعْتُہُ وَ ثَمَّرْتُہُ وَتَرَکْتُہُ أَکْثَرَ مَاکَانَ، فَأَرْجِعْنِيْ آتِکَ بِہٖ کُلِّہٖ۔ فَیَقُوْلُ: أَرِنِيْ مَا قَدَّمْتَ؟ فَیَقُوْلُ: رَبِّ! جَمَعْتُہُ وََثَمَّرْتُہُ وَ تَرَکْتُہُ أَکْثَرَ مَا کَانَ، فَأَرْجِعْنِيْ آتِکَ بِہٖ کُلِّہٖ۔ فَاِذَا عَبْدٌ لَّمْ یُقَدِّمْ خَیْرًا، فَیُمْضَی بِہٖ إِلَی النَّارِ۔
رواہ الترمذي وضعفہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کیاگیا کہ قیامت کے دن آدمی ایسا (ذلیل وضعیف) لایا جائے گا جیسا کہ بھیڑ کا بچہ ہوتا 
Flag Counter