Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

16 - 607
قیامت کا دن نہایت ہی سخت رنج و غم اور خوف کا دن ہے، جیسا کہ اس رسالہ کے ختم پر آرہا ہے ۔اس دن کسی کا بے خوف ہونا، غمگین نہ ہونا بہت اونچی چیز ہے۔
۹۔ اِنْ تُبْدُوْا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَج وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِِّاتـِکُمْ ط  وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
( البقرۃ : ع  ۳۷ )


صدقات کو اگر تم ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر تم ان کو چپکے سے فقیروں کو دے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اور حق تعالیٰ شا نہٗ تمہارے کچھ گناہ معاف کردیں گے، اور اللہ  کو تمہارے  کاموں کی خبر ہے۔
دوسری آیت میں ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ ولَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o
(البقرۃ : ع ۳۸)


جو لوگ اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں رات دن، پوشیدہ اور کھلم کھلا، ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس اس کا ثواب ہے اور قیامت کے دن نہ ان کو کوئی خوف ہوگا نہ وہ مغموم ہوں گے۔
فائدہ: ان دونوں آیتوں میں صدقہ کو چھپا کر دینا اور کھلم کھلا ظاہر کرکے دینا دونوں طریقوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اور بہت سی احادیث اور قرآنِ پاک کی آیات میں رِیا کی یعنی دکھلاوے کے لیے کام کرنے کی برائی اور اس کو شرک بتایا ہے، اور ثواب کو ضائع کر دینے والا بلکہ گناہ کو لازم کر دینے والا بتایا ہے۔ اس لیے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دکھلاوا اور چیز ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جو کام کھلم کھلا کیا جائے وہ رِیا ہی ہو، بلکہ رِیا یہ ہے کہ اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے واسطے، اپنی شہرت کے واسطے، اپنا کمال ظاہر کرنے اور عزت حاصل کرنے کے واسطے، کوئی کام کیا جائے تو وہ رِیا ہے۔
اور جو اللہ  کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے اور اللہ کی خوشنودی کسی مصلحت سے اعلان ہی میں ہو تو وہ رِیا نہیں ہے۔ 
اس کے بعد ہر عمل بالخصوص صدقہ میں افضل یہی ہے کہ وہ اِخفا کے ساتھ کیا جائے کہ اس میں رِیا کا احتمال بھی نہیں رہتا، اور صدقہ لینے والے کی ذلت اور اذیت سے بھی امن ہے۔ اور یہ بھی مصلحت ہے کہ اس وقت اگرچہ رِیا نہ ہو، لیکن جب 
Flag Counter