Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

131 - 607
ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو آدمی پر ہر جوڑ کے بدلہ میں ایک صدقہ ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کردو یہ بھی صدقہ ہے، کسی شخص کی سواری پر سوار ہونے میں مدد کر دو یہ بھی صدقہ ہے، اس کا سامان اٹھاکر دے دو یہ بھی صدقہ ہے، کلمۂ طیبہ (یعنی لاَإِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ پڑھنا) بھی صدقہ ہے، ہر وہ قدم جو نماز کے لیے چلے صدقہ ہے، کسی کو راستہ بتا دو یہ بھی صدقہ ہے، راستہ سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دو یہ بھی صدقہ ہے۔ (الجامع الصغیر)
ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ آدمی کے ہر جوڑ کے بدلہ میں اس پر صدقہ ضروری ہے۔ ہر نماز صدقہ ہے، روزہ صدقہ ہے، حج صدقہ ہے، سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمد للہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو کوئی راستہ میں مل جائے اس کو سلام کرنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے، برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔ (ابوداود) اور بھی اس قسم کی متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بھلائی، ہر نیکی، ہر احسان صدقہ ہے بشرطے کہ اللہ کے واسطے ہو۔
دوسری چیز حدیث ِبالا میں یہ ذکر کی گئی کہ جو شخص کسی کارِخیر پر کسی کو ترغیب دے اس کو بھی ایسا ہی ثواب ہے جیسا کرنے والے کو۔ یہ حدیث مشہور ہے۔ بہت سے صحابۂ کرام? سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا کہ بھلائی کا راستہ بتانے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کو کرنے والا ہو۔ حق تعالیٰ شا نہٗ عم نوالہٗ کی عطا اور احسان، بخشش اور انعام کا کیا ٹھکانا ہے۔ اس کی عطائیں اس کے الطاف بے محنت ملتے ہیں، مگر ہم لینا ہی نہ چاہیں تو اس کا کیا علاج ہے؟ ایک شخص خود نفلیں کثرت سے نہیں پڑھ سکتا، وہ دوسروں کو ترغیب دے کر نفلیں پڑھوائے اس کوبھی ان کا ثواب ہو۔ خو د نادار ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ما ل کثرت سے خرچ نہیں کرسکتا، دوسروں کو ترغیب دے کر خرچ کرائے اور خرچ کرنے والوں کے ساتھ خود بھی ثواب کا شریک بنے۔ ایک شخص خود روزے نہیں رکھ سکتا، حج نہیں کرسکتا، جہاد نہیں کرسکتا، اور کوئی عبادت نہیں کرسکتا، لیکن ان چیزوں کی دوسروں کو ترغیب دیتا ہے اور خود ان سب کاشریک بنتا ہے۔ بہت غور سے سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ اگر آدمی اپنے آپ ہی ان سب عبادتوں کو کرنے والا ہو تو ایک ہی کے کرنے کا ثواب تو ملے گا، لیکن ان چیزوں پر سو آدمیوں کو ترغیب دے کر کھڑا کر دے تو سو کا ثواب ملے گا۔ اور ہزار دو ہزار کو اور ان سے زیادہ کو لگا دے، تو جتنے لوگوں کو آمادہ کر دے گا سب کا ثواب ملتا رہے گا۔ اور لطف یہ ہے کہ خود اگر مر بھی جائے گا تو ان اعمال کے کرنے والوں کے اعمال کا ثواب بعد میں بھی پہنچتا رہے گا۔ کیا اللہ  کے احسانات کی کوئی حد ہے؟ اور کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو لاکھوں کو اپنی زندگی میں دینی کاموں پر لگا گئے اور اب مرنے کے بعد وہ ان اعمال کے کرنے والوں کے ثواب میں شریک ہیں۔
Flag Counter