Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

129 - 607
مختلف ہوتے ہیں۔ بعض پسند کرتے ہیں اور بعض پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح جو چیز خرچ کی جائے اس کے اعتبار سے بھی مختلف احوال ہوتے ہیں۔ ایک تو معمولی چیز قابلِ تسامح ہوتی ہے اور کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس کی خاوند کو اہمیت ہو۔ اسی طرح سے کوئی تو ایسی چیز ہوتی ہے جس کے رکھنے میں اس کے خراب ہو جانے کااندیشہ ہو اور کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس کے روکنے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ حافظ ابنِ حجر ؒ نے نقل کیا ہے کہ یہ شرط تو متفق علیہ ہے کہ وہ عورت خرچ کرنے میں فساد کرنے والی نہ ہو۔
بعض علما نے کہا ہے کہ خرچ کرنے کی ترغیبیں حجاز کے عرف کے موافق وارد ہوئی ہیں کہ وہاں بیویوں کو اس قسم کے تصرفات کی عام اجازت ہوتی تھی کہ وہ مساکین کو، مہمانوں کو، پڑوس کی عورتوں کو، سوال کر نے والوں کو کھانے وغیرہ کی چیزیں دے دیں۔ حضورِاقدسﷺ کا مقصد ان روایات سے اپنی امت کو ترغیب دینا ہے کہ عرب کی یہ نیک خصلت اختیار کریں۔ (مظاہرِ حق)
چناںچہ ہمارے دیار میں بھی بہت سے گھروں میں یہ عرف ہے کہ اگر سائل یا کسی عزیز یا ضروت مند کو، بھوکے کو، کھانے پینے کی چیزیں دے دی جائیں تو خاوندوں کے نزدیک یہ چیز نہ ان سے قابلِ اجازت ہے، نہ یہ ان کے لیے موجب ِتکدُّر ہوتا ہے۔
دوسرا مضمون حدیثِ بالا میں محافظ اور خزانچی کے متعلق وارد ہوا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل مالک کسی شخص کو ہدیہ دینے کی ، صدقہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے، مگر یہ خزانچی اور محافظ کارکن اس میں رخنہ پیدا کیا کرتے ہیں۔ بالخصوص امرا اور سلاطین کے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مالک کی طرف سے صدقات کے پروانے جاری ہوتے ہیں اور یہ میر منشی ہمیشہ عدمِ گنجایش کا عذر کھڑا کرتے ہیں۔ اس لیے حضورِ اقدسﷺ نے متعدد روایات میں اس کی ترغیب دی ہے کہ یہ کارکن حضرات اگر نہایت طیب ِخاطر اور خندہ پیشانی سے مالک کے حکم کی تعمیل کریں، تو ان کو محض ذریعہ اور واسطہ ہونے کی وجہ سے اللہ کے فضل و انعام سے مستقل ثواب ملے، جیسا کہ اوپر کے مضمون میں متعدد روایات اس کی گزر چکی ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر مسلمان خزانچی امانت دار مالک کے حکم کی تعمیل پوری پوری خندہ پیشانی اور خوش دلی کے ساتھ کرے، اور جتنا دینے کا اس کو حکم ہے اتنا ہی دے دے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں ہے ۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک حدیث میں ہے کہ اگر صدقہ (بالفرض) سات کروڑ آدمیوں کے ہاتھ میں سے نکل کر آئے تو آخر والے کو بھی ایسا ہی ثواب ہوگا جیسا کہ اوّل والے کو۔ (کنز العمال) یعنی مثلاً: کسی بادشاہ نے صدقہ کا حکم دیا اور اس کے عملہ کے اتنے آدمیوں کو اس میں واسطہ بننا پڑا تو سب کو ثواب ہوگا۔ یعنی اجر و ثواب کے اعتبار سے وہ بھی سب ایسے ہی ہیں جیسا کہ صدقہ کرنے 
Flag Counter