Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

126 - 607
ہمارے حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ صاحب نوّر اللہ مرقدہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے پاک ارشاد ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو غنیٰ سے ہو‘‘ میںغنیٰ سے مراد دل کا غنیٰ ہے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ) اس صورت میں یہ احادیث پہلی احادیث کے خلاف بھی نہیں ہیں۔ خودحضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد بھی احادیث میں آیا ہے کہ غنیٰ مال کی کثرت سے نہیں ہوتا بلکہ اصل غنیٰ دل کا ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
اوپر جو قصہ سونے کی ڈلی کا گزرا اس میں بھی اشارۃً یہ مضمون ملتا ہے کہ ان صاحب کا بار بار یہ عرض کرنا کہ یہ سارا صدقہ ہے اور میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے، اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ دل کو اس سے وابستگی ہے۔
صاحبِ ’’مظاہر‘‘ فرماتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ صدقہ غنا سے دیا جائے چاہے غنائے نفس ہو۔ یعنی اللہ پر اعتمادِ کامل ہو جیسا کہ ابوبکر صدیقؓ نے جب تمام مال اللہ کے لیے دے دیا اور حضورﷺ کے اس ارشاد پر کہ اپنے عیال کے لیے کیا چھوڑا؟ انھوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ، تو حضور ﷺنے ان کی تعریف فرمائی۔ اور یہ درجہ حاصل نہ ہو تو پھر مال کا غنیٰ باقی رہے۔
حاصل یہ ہے کہ توکُّلِ کامل ہو تو جو چاہے خرچ کر دے اور یہ کامل نہ ہو تو اہل و عیال کی رعایت کو مقدم کرے۔ (مظاہرِ حق) مگر اپنے دل کو اپنی اس کوتاہی پر تنبیہ کرتا رہے اور غیرت دلاتا رہے کہ تجھے اس ناپاک دنیا پر جتنا اعتماد ہے اللہ  پر اس کا آدھا تہائی بھی نہیں ہے، ان شاء اللہ اس کے باربار تنبیہ سے ضروراثر ہوگا۔ کاش! حق تعالیٰ شا نہٗ ان اَکابر کے توکُّل اور اعتماد کا کچھ حصہ اس کمینہ کو بھی عطا فرما دیتا ۔
۲۵۔ عَنْ عَائِشَۃَؓ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْ طَعَامِ بَیْتِھَا غَیْرَ مُفْسِدَۃٍ کَانَ لَھَا أَجْرُھَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِزَوْجِھَا أَجْرُہُ    


حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جب عورت اپنے گھر کے کھانے میں سے ایسی طرح صدقہ کرے کہ (اِسراف وغیرہ سے) اس کو خراب نہ کرے ، تو اس کو خرچ کرنے کا 
بِمَا کَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ، لَایَنْقُصُ بَعْضُھُمْ أَجَْرَ بَعْضٍ شَیْئًا ۔  
متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


Flag Counter