Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

125 - 607
ہے ہی نہیں۔ (کنز العمال)
یہ روایات بظاہر پہلی روایات کے خلاف ہیں گو حقیقت میں کچھ خلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان روایات میں ممانعت کی وجہ کی طرف حضورﷺ نے خود ہی اشارہ فرما دیا کہ سارا مال صدقہ کرکے پھر لوگوں کے ہاتھوں کو تکتے ہیں۔ ایسے آدمیوں کے لیے یقینًا تمام مال صدقہ کرنا مناسب نہیں بلکہ نہایت بے جاہے، لیکن جو حضرات ایسے ہیں کہ ان کو اپنے پاس جو مال موجود ہو، اس سے زیادہ اعتماد اس مال پر ہو جو اللہ کے قبضہ میں ہے جیسا کہ حضرت علی ؓ کے قصہ میں ابھی گزرا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے احوال تو اس سے بھی بالاتر ہیں، ایسے حضرات کو سارا مال صدقہ کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ اس کی کوشش ضرور کرتے رہنا چاہیے کہ اپنا حال بھی ان حضرات جیسا بن جائے، اور دنیا سے ایسی بے رغبتی اور حق تعالیٰ شا نہٗ پر ایسا ہی اعتماد پیدا ہو جائے جیسا ان حضرات کو تھا۔ اور جب آدمی کسی کام کی کوشش کرتا ہے تو حق تعالیٰ شا نہٗ وہ چیز عطا فرماتے ہی ہیں۔ مَنْ جَدَّ وَجَدَ  ضرب المثل ہے کہ جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔
ایک بزرگ سے کسی نے دریافت کیا کہ کتنے مال میں کتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ عوام کے لیے دو سو دِرَم میں پانچ دِرَم یعنی چالیسواں حصہ شریعت کا حکم ہے، لیکن ہم لوگوں پر سارا مال صدقہ کر دینا واجب ہے۔ (اِحیاء العلوم: ج ) اسی ذیل میں حضورﷺ کے وہ ارشادات ہیں جو احادیث کے سلسلہ میں نمبر (۱) پر گزرے کہ اگر اُحد کا پہاڑ سارے کا سارا سونا بن جائے تو مجھے یہ گوارا نہیں کہ اس میں سے ایک دِرَم بھی باقی رکھوں، بجز اس کے جو قرض کی ادائیگی کے لیے ہو۔ اسی بنا پرحضورِ اقدس ﷺ عصر کی نماز کے بعد نہایت عجلت سے مکان تشریف لے گئے اور سونے کا ٹکڑا جو گھر میں اتفاق سے رہ گیا تھا اس کو صدقہ کا حکم فرما کر واپس تشریف لائے، اور چند داموں کی موجودگی کی وجہ سے اپنی علالت میں بے چین ہوگئے جیسا کہ سلسلۂ احادیث میں نمبر (۴ )پر گزرا۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی ’’صحیح بخاری شریف‘‘ میںفرمایا کہ صدقہ بغیر غنیٰ کے نہیں ہے اور جو شخص ایسی حالت میں صدقہ کرے کہ وہ خود محتاج ہو یا اس کے اہل و عیال محتاج ہوں یا اس پر قرض ہو تو قرض کا ادا کرنا مقدم ہے، ایسے شخص کا صدقہ اس پر لوٹا دیاجائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص صبرکرنے میں معروف ہو اور اپنے نفس پر باوجود اپنی اِحتیاج کے ترجیح دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فعل تھا یا انصار نے مہاجرین کو اپنے اوپر ترجیح دی۔ (تو اس میں مضائقہ نہیں)
علامہ طبری ؒکہتے ہیں: جمہور علما کا یہ مذہب ہے کہ جو شخص اپنا سارا مال صدقہ کر دے بشرطے کہ اس پر قرض نہ ہو اور تنگی کی اس میں برداشت ہو اور اس کے عیال نہ ہوں یا اگر ہوں تو وہ بھی اس کی طرح سے صابر ہوں، توسارا مال صدقہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو سارا مال صدقہ کرنا مکروہ ہے۔ (فتح الباری)
Flag Counter