Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

123 - 607
سے فرمایا کہ اپنی والدہ ( حضرت فاطمہؓ) سے کہو کہ میں نے جو چھ دِرَم ہم تمہارے پاس رکھے ہیں ان میں سے ایک دے دو۔ صاحب زادے گئے اور یہ جواب لائے کہ وہ آپ نے آٹے کے لیے رکھوائے تھے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ آدمی اپنے ایمان میںا س وقت تک سچا نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے پاس کی موجود چیز سے اس چیز پر زیادہ اعتماد نہ ہو جو اللہ  کے پاس ہے۔ اپنی والدہ سے کہو کہ وہ چھ دِرَم سب کے سب دے دو۔ حضرت فاطمہؓ نے تو یاد دہانی کے طور پر فرمایا تھا ان کو اس میں کیا تامّل ہو سکتا تھا، اس لیے حضرت فاطمہؓ نے دے دیے۔ حضرت علیؓ نے وہ سب سائل کو دے دیے۔ حضرت علیؓ اپنی اس جگہ سے اٹھے بھی نہیں تھے کہ ایک شخص اونٹ فروخت کرتا ہوا آیا۔ آپ نے اس کی قیمت پوچھی۔ اس نے ایک سو چالیس دِرَم بتائے۔ آپ نے وہ قرض خرید لیا اور قیمت کی ادائیگی کا بعد کا وعدہ کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص آیا اور اونٹ کو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ یہ کس کا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میرا ہے۔ اس نے دریافت کیا کہ فروخت کرتے ہو؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے قیمت دریافت کی، حضرت علی ؓنے دو سو دِرَم بتائے وہ خرید کر لے گیا۔ حضرت علیؓ نے ایک سو چالیس دِرَم اپنے قرض خواہ یعنی پہلے مالک کو دے کر ساٹھ دِرَم حضرت فاطمہؓ کو لا کر دے دیے۔ حضرت فاطمہؓ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے نبی کے واسطے سے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص نیکی کرتا ہے اس کو دس گناہ بدلہ ملتا ہے۔ (کنز العمال)
یہ بھی جُہد والے کی مشقت تھی کہ کُل صرف چھ دِرَم1 کل موجود تھے جو آٹے کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔اللہ  پر کامل اعتماد کرکے ان کو خرچ فرما دیا اور دَہ دَر دنیا کا بدلہ وصول کرلیا۔ اور بھی بہت سے واقعات ان حضرات کے اللہ  پر اعتمادِ کامل کرکے سب کچھ خرچ کر ڈالنے کے وارد ہوئے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓکا قصہ غزوئہ تبوک کا مشہور معروف ہے کہ جب حضورﷺ نے صدقہ کا حکم فرمایا تو جو کچھ گھر میں تھا سب کچھ لاکر پیش کر دیا اور حضورﷺ کے دریافت فرمانے پر کہ گھر میں کیا چھوڑا عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو۔ یعنی ا ن کو رضا کو۔ علما نے لکھا ہے کہ جب حضر ت ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار اشرفیاں تھیں۔ (تاریخ الخلفاء)
محمد بن عبّاد مہلّبی ؒ کہتے ہیں کہ میرے والد مامون رشید بادشاہ کے پاس گئے۔ بادشاہ نے ایک لاکھ دِرَم ہدیہ دیا۔ والد صاحب جب وہاں سے اٹھ کر آئے تو سب کے سب صدقہ کردیے۔ مامون کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ جب دوبارہ والد صاحب کی ملاقات ہوئی تومامون نے ناراضی کا اظہار کیا۔ والد صاحب نے کہا: اے امیر المؤمنین! موجود کا روکنا معبود کے ساتھ بدگمانی ہے۔ (اِحیاء العلوم) یعنی جوچیز موجود ہے اس کو خرچ نہ کرنا اسی خوف سے تو ہوتا ہے کہ یہ نہ رہے گی تو 
Flag Counter