Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

122 - 607
بازار جاتے اور اپنے اوپر بوجھ لاد کر مزدوری میں ایک مُدّ (جو حنفیہ کے نزدیک ایک سیر وزن ہے اور دوسرے حضرات کے نزدیک تین پائو سے بھی کچھ کم ہے) کماتے اور اس کو صدقہ کر دیتے۔ (فتح الباری)
بعض روایات میں ہے کہ ہم میں سے بعض آدمی جن کے پاس ایک دِرَم بھی نہ ہوتا تھا بازار جاتے اور لوگوں سے اس کی خواہش کرتے کہ کوئی مزدوری پر کام کرالے اور اپنی کمر پر بوجھ لاد کر ایک مُدّمزدوری حاصل کرتے۔ راوی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں جہاں تک خیال ہے خود حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ اپنا ہی حال بتایا ہے۔
حضرت امام بخاری  ؒ نے ا س پر یہ باب ذکر کیا ہے: بیان اس شخص کا جو اس لیے مزدوری کرے کہ اپنی کمر پر بوجھ لادلے اور پھر اس مزدوری کو صدقہ کر دے۔(فتح الباری)
آج ہم میں سے بھی کوئی اس امنگ کا آدمی ہے کہ اسٹیشن پر جاکر صرف اس لیے بوجھ اٹھائے کہ دو چار آنے جو مل جائیں گے وہ ان کو صدقہ کر دے گا؟ ان حضرات کو آخر ت کے کھانے کا ہر وقت اتنا ہی فکر رہتا تھا جتنا ہمیں دنیا کے کھانے کا ۔ ہم اس لیے مزدوری کرتے ہیں کہ آج کھانے کو کچھ نہیں، لیکن یہ اس لیے مزدوری کرتے تھے کہ آج آخرت میں جمع کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ابتدائے اسلام میں بعض منافق ایسے لوگوں پر طعن کرتے تھے جو مشقت اٹھا کر تھوڑا تھوڑا صدقہ کرتے تھے، حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان پر عتاب فرمایا۔ چناںچہ ارشاد ہے:
{ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ اِلاَّ جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ ط سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْ ز وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ o} ( التوبۃ : ع ۱۰)


یہ (منافق) ایسے لوگ ہیں کہ نفل صدقہ کرنے والے مسلمانوں پر صدقات کے بارہ میں طعن کرتے ہیں، اور (بالخصوص )ان لوگوں پر (اور بھی زیادہ )طعن کرتے ہیں جن کو بجز محنت اور مزدوری کے کچھ میسر نہیں 
ہوتا، یہ (منافق) ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ  ان کے مذاق اڑانے کا بدلہ (اسی نوع سے ) دے گا (کہ آخرت میں ان احمقوں کا بھی اول مذاق اڑایا جائے گا) اور دکھ دینے والا عذاب تو ان کے لیے ہے ہی۔ (وہ تو ٹلتا نہیں)
مفسرین نے اس آیتِ شریفہ کے ذیل میں بہت سی روایات اس قسم کی ذکر کی ہیں کہ یہ حضرات رات بھر حمّالی کرکے مزدوری کماتے اور صدقہ کرتے، اور جو کچھ تھوڑا بہت گھر میں ہوتا وہ تو ان کی نگاہ میں صدقہ ہی کے واسطے ہوتا تھا، مجبوری کے درجہ میں کچھ خود بھی استعمال کرلیا۔
ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا۔ آپ نے اپنے صاحب زادہ حضرت حسن یا حضرت حسین ? 
Flag Counter