Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

11 - 607
اصلاح کرلیں۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ اور ہلاکت میں اپنے کو ڈالنا اپنے اموال کی اصلاح میں مشغول ہو جانا اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔ (دُرِّ منثور)
۴۔ وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَo قُلِ الْعَفْوَ ط  الآیۃ   ( البقرۃ : ع  ۲۷)




لوگ آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ (خیرات میں) کتنا خرچ کریں؟ آپ فرما دیجیے کہ جتنا (ضرورت سے) زائد ہو۔
فائدہ: یعنی مال تو خرچ ہی کرنے کے واسطے ہے۔ جتنی اپنی ضرورت ہو اس کے موافق رکھ کر، جو زائد ہو وہ خرچ کردے۔ حضرت ابن عباس? فرماتے ہیں کہ اپنے اہل و عیال کے خرچ سے جو بچے وہ عَفْو ہے۔ حضرت ابو امامہؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اے آدمی! جو تجھ سے زائد ہے اس کو تو خرچ کردے، یہ بہتر ہے تیرے لیے۔ اور تو اس کو روک کر رکھے یہ تیرے لیے برا ہے۔ اور بقدرِ ضرورت پر کوئی ملامت نہیں۔ اور خرچ کرنے میں ان لوگوں سے ابتدا کر جو تیرے عیال میں ہیں۔ اور اونچا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) بہتر ہے اس ہاتھ سے جو نیچے ہو۔ (یعنی لینے کے لیے پھیلا ہوا ہو) حضرت عطا ؒ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے کہ عفو سے مراد ضرورت سے زائد ہے۔ (دُرِّمنثور)
حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس سواری زائد ہو، وہ ایسے شخص کو سواری دے جس کے پاس سواری نہیں ہے۔ اور جس کے پاس توشہ زائد ہو، وہ ایسے شخص کو توشہ دے جس کے پاس توشہ نہ ہو۔ (حضورﷺ نے اس قدر اہتمام سے یہ بات فرمائی) ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ کسی شخص کا اپنے کسی ایسے مال میں حق ہی نہیں ہے جو اس کی ضرورت سے زائد ہو۔ (ابوداود)
اور کمال کا درجہ ہے بھی یہی کہ آدمی کی اپنی واقعی ضرورت سے زائد جو چیز ہے وہ خرچ ہی کرنے کے واسطے ہے، جمع کرکے رکھنے کے واسطے نہیں ہے۔ بعض علما نے عفو کا ترجمہ سَہْل کا کیا ہے۔ یعنی جتنا آسانی سے خرچ کرسکے کہ اس کو خرچ کرنے سے خود پریشان ہو کر دنیوی تکلیف میں مبتلا نہ ہو اور دوسرے کا حق ضائع ہونے سے آخرت کی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ حضرت ابنِ عباس? سے نقل کیا گیا کہ بعض آدمی اس طرح صدقہ کرتے تھے کہ اپنے کھانے کو بھی ان کے پاس نہ رہتا تھا، حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کو ان پر صدقہ کرنے کی نوبت آجاتی تھی،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں تشریف لائے۔ حضورِاقدسﷺ نے ان کی یہ حالت دیکھ کر 
Flag Counter