Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

101 - 607
کا مطلب یہ ہے کہ کسی مدرسہ میں چندہ دیا ہو، یا کوئی دینی کتاب تالیف کی ہو، یا پڑھنے والوں کو تقسیم کی ہو، یا مسجدوں اور مدرسوں میں قرآنِ پاک یا کتابیں وقف کی ہوں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد سات چیزوں کا ثواب اس کو ملتا رہتا ہے۔ کسی کو علم پڑھایا ہو، کوئی نہر جاری کر دی ہو، کوئی کنواں بنوا دیا ہو، کوئی درخت لگا دیا ہو، کوئی مسجد بنادی ہو، قرآنِ پاک میرا ث میں چھوڑا ہو، یا ایسی اولاد چھوڑی ہو جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہے۔ (الترغیب والترہیب)
اور ان سب چیزوں میںیہ بھی ضروری نہیں کہ ساری تنہا خود ہی کی ہوں، بلکہ اگر کسی چیز میں تھوڑی بہت شرکت بھی اپنی ہوگئی تو بقدر اپنے حصہ کے اس کے ثواب میں سے حصہ ملتا رہے گا۔ دوسری چیزاوپر کی حدیث میں وہ علمِ دین ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے۔ مثلاً: کسی مدرسہ میں کوئی کتاب وقف کر گیا۔ جب تک وہ کتاب باقی ہے اس سے لوگ نفع اٹھاتے رہیں گے، اس کا ثواب خود بخود ملتا رہے گا۔ کسی طالبِ علم کو اپنے خرچ سے حافظ قرآن یا عالم بناگیا۔ جب تک اس کے علم و حفظ سے نفع پہنچتا رہے گا، چاہے و ہ حافظ اور عالم خود زندہ رہے یا نہ رہے، اس شخص کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ مثلاً: کسی شخص کو حافظ بنایا تھا، اس نے دس بیس لڑکوں کو قرآنِ پاک پڑھا دیا او وہ حافظ اس کے بعد مر گیا۔ تو جب تک یہ لڑکے قرآنِ پاک پڑھتے پڑھاتے رہیں گے اس حافظ کو مستقل ثواب ملتارہے گا اور اس حافظ بنانے والے کو علیحدہ ثواب ہوتا رہے گا۔ اور اسی طرح سے جب تک ان پڑھنے والے لڑکوں کا سلسلہ پڑھنے پڑھانے کا قیامت تک چلتا رہے گا اس اصل حافظ بنانے والے کو ثواب خود بخود ملتا رہے گا، چاہے یہ لوگ ثوا ب پہنچائیں یا نہ پہنچائیں۔
یہی صورت بعینہٖ کسی شخص کو عالم بنانے کی ہے کہ جب تک بلا واسطہ یا بواسطہ اس کے علم سے لوگوں کو نفع کا سلسلہ چلتا رہے گا اس اوّل عالم بنانے والے کو ان سب کا ثواب ملتا رہے گا اور یہاں بھی وہی پہلی بات ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ پورا حافظ یا پورا عالم خود تنِ تنہا بنائے۔ اگر کسی حافظ کے حفظ میں اپنی طرف سے مدد ہوگئی،کسی عالم کے علم حاصل کرنے میں اپنی طرف سے کوئی اِعانت ہوگئی تو اس اِعانت کی بقدر ثواب کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
خوش نصیب ہیں وہ لو گ جن کی کسی قسم کی جانی یا مالی کوشش علم کے پھیلانے میں، دین کے بقا اور حفظ میں لگ جائے کہ دنیا کی زندگی خواب سے زیادہ نہیں۔ نہ معلوم کب اس عالم سے ایک دَم جانا ہو جائے۔ جتنا ذخیرہ اپنے لیے چھوڑ جائے گا وہی دیرپا اور کارآمد ہے۔ عزیز، قریب، اَحباب، رشتہ دار، نسب دو چار دن رو کر یاد کرکے اپنے اپنے مشاغل میں لگ کر بھول جائیں گے۔ کام آنے والی چیزیں یہی ہیں جن کو آدمی اپنی زندگی میں اپنے لیے کبھی فنا نہ ہونے والے 
Flag Counter