Deobandi Books

تقریر ختم قرآن مجید و بخاری شریف

ہم نوٹ :

34 - 38
بیان کرنے کے صدقے میں۔ پاکی بیان کرکے اللہ کی حمد بھی بیان کرو کہ دنیا بھر کی تعریفیں اس کے لیے خاص ہیں تو اس کی حمدکی برکت سے تم محمود بھی ہوجاؤگے اور تمہارے اندر بڑائی نہیں آئے گی اور سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمْ، سے اللہ کی عظمت بیان کرنے کے صدقے میں اللہ تم کو عظمت دے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی تسبیح وعظمت وحمد کی برکت سے تم کو اللہ مخلوق میں بڑائی ملنے کے شر سے پاک بھی رکھے گا۔
صحبتِ اہل اللہ کی اہمیت اور اس کی مثال
مگر ان تمام علوم کے باوجود ایک چیز اپنی جگہ پر ہے اور وہ ہے بزرگوں کی صحبت۔ ان ہی کی برکت سے آدمی سنبھلا رہتا ہے، اور صحبت کب چاہیے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس وقت تک صحبت اختیار کرو جب تک کہ تم شیخ جیسے نہ ہوجاؤ۔ تمہارا مربی جیسا اللہ والا ہے ویسے ہی تم بھی ہوجاؤ۔ اتنے دن ساتھ رہو کہ تم بھی اس مقام پر پہنچ جاؤ جس پر تمہارا شیخ ہے۔ اس کی وضاحت اختر کرتا ہے کہ ایک درخت ہے جس کا تنا کمزور ہے، تو اس کے ساتھ ایک ڈنڈا باندھ دیتے ہیں اور ڈنڈے کو زمین میں گاڑ دیتے ہیں، تو ڈنڈا کھڑا ہوتا ہے جو مسٹنڈا بھی ہوتا ہے، مضبوط بھی ہوتا ہے یعنی اس لمبے درخت کو جو سیدھا جارہا ہے اس ڈنڈے کے سہارے  سے وہ قائم رہتا ہے اوربڑھتا رہتا ہے،یہاں تک کہ جب اس کا تنا مضبوط ہوگیا تو اب ڈنڈا  ہٹالیتے ہیں،اس درخت کے ذمہ صرف ڈنڈے کا شکریہ باقی رہتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے تو شیخ کی پھر ضرورت نہیں رہتی، مگر شیخ کا شکریہ ہمیشہ ادا کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے شیخ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ مثال بھی پہلی دفعہ بیان ہوئی ہے کہ جو درخت کمزور ہوتے ہیں اگر ان کو اکیلا چھوڑدو تو جب ہوا چلے گی تو وہ زمین پر گرجائیں گے۔ آپ نے صبح جاکر دیکھا تو زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ تو آپ کہتے ہیں کہ بھائی ابھی تو سجدے کا حکم نہیں تھا، ابھی تو قیام کرنا چاہیے تھا، لہٰذا آپ نے لاکر ایک ڈنڈا لگادیا۔ شیخ وہی ہے جو مریدین کو ابتدائی زمانے میں سہارا دیتا ہے اور دُعا کرتا ہے کہ اللہ کرے وہ دن آئے کہ اللہ سے ان کی نسبت بالکل قوی ہوجائے، پھر ہر شخص دوسروں کو سہارا دے گا۔ وہ درخت بھی دوسروں کے لیے سہارا بن جاتا ہے۔ اس کی ایک شاخ کاٹ کر دوسرے کمزور درختوں کے لیے سہارا بناکر لگادیتے ہیں۔ یہ شاخیں اصل ہی سے تو ہیں۔ جو درخت کبھی ایک ڈنڈے کے سہارے پر تھا وہ
Flag Counter