سے ہمارے مدرسے میں بخاری شریف ختم ہورہی ہے، یعنی پچھلے سال بھی اور اس سال بھی بخاری شریف ختم ہوئی ہے۔ آج یہ طلبا عالم ہوگئے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ختم بخاری شریف پر مولانا عبداللہ شجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ اے علمائے کرام! بخاری شریف پڑھ کر آج آپ لوگ عالم ہوگئے، مگر بخاری شریف کی روح جب ملے گی جب کچھ دن کسی اللہ والے کے پاس رہ لوگےکیوں کہ علمِ نبوت کے ساتھ نورِ نبوت کی بھی ضرورت ہے۔ علمِ نبوت مدارس سے حاصل کرلو اور نورِ نبوت اللہ والوں سے حاصل کرلو۔ نورِ نبوت کے بعد پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کو اللہ کی محبت اور خشیت کیسے حاصل ہوتی ہے اور آپ کیسےاللہ والے بنتے ہیں! کیفیاتِ احسانیہ اہل اللہ کے سینوں سے ملتی ہیں اور کمیاتِ اعمالیہ کتبِ مدارس سے ملتی ہیں۔ اعمال کی کمیات کتبِ مدارس سے حاصل ہوجاتی ہیں، لیکن اعمال کی کیفیات کہ کس کیفیت سے نماز پڑھنی چاہیے،کس کیفیت سے تلاوت کرنی چاہیے،کس کیفیت سے اللہ کا نام لینا چاہیے، یہ کیفیات اہل اللہ کے سینوں سے ملتی ہیں۔ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’واما نور باطن صلی اللہ علیہ وسلم از سینۂ درویشاں باید جست‘‘ کہ نورِ باطن اللہ والوں کے سینوں سے حاصل ہوگا، اس کے بغیر دین رسمی ہوتا ہے، زبان پر ہوتا ہے، دل میں نہیں اُترتا۔
قبولیتِ اعمال کی مثال
الحمدللہ تعالیٰ! آج ہمارے مدرسے میں بخاری شریف ختم ہوگئی اور اس سال بخاری شریف دو علمائے کرام نے پڑھائی اور دونوں نے نہایت اچھا پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمالیں تو سب اچھا ہے اور اگر قبول نہ فرمائیں تو کچھ اچھا نہیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو ایک مثال سے واضح فرمایا کہ ایک شخص چوڑیاں بیچ رہا تھا،اس کے پاس ایک ہزار چوڑیاں تھیں۔ ایک دیہاتی آیا اور دیہاتیوں کا قاعدہ ہے کہ لاٹھی سے ٹھونگا مارکر پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ تو اس نے لاٹھی ماری اور پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ اس کی تو دوسو چوڑیاں ٹوٹ گئیں، تو اس نے کہا کہ اب کیا بتاؤں کہ یہ کیا چیز ہے؟ایک لاٹھی اور مارو تو یہ کچھ بھی نہیں۔ جنوبی افریقہ کے ایک بہت معمر حافظِ قرآن جو حضرت حکیم الامت تھانوی سے بیعت ہیں، بڑے بڑے علماء ان کے شاگرد ہیں، میں نے پوچھا کہ جنوبی افریقہ میں جہاں جاتا