دل کس کو دینا چاہیے؟
دورانِ گفتگو حضرت والا نے اپنا یہ شعرپڑھا؎
جتنے حسین دوست تھے ان کا بڑھاپا دیکھ کر
حسن کی شان گرگئی میری نگاہِ شوق سے
اور فرمایا کہ اگر دل دینا ہے تو کسی کے بچپن کو دیکھ کر دل مت دو، اس کا پچپن سامنے رکھو کہ پچپن کی عمر میں اس پر کیا پن آئے گا؟ کون ساپن آئے گا؟ ابھی تو بچپن لگا ہوا ہے، لہٰذا اس سے بچو۔ دیکھو بچپن میں بچ لگا ہے کہ نہیں؟ آج یہ نیا علم عطا ہوا۔ ابھی ابھی قلب کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے کہ ارے ظالمو! بچپن میں تو تم لوگوں نے پہلے ہی بچ لگایا ہوا ہے، لہٰذا بچو، بچو، بچو، کسی کے بچپن سے بچو ورنہ تمہارا پچپن خراب ہوجائے گا، حالت خراب ہوجائے گی، لہٰذا اب میرا شعر سنیے؎
ان کے پچپن کو ان کے بچپن سے
پہلے سوچو تو دل نہیں دو گے
دل دینا ہے تو اللہ والوں کو دے دو، ان پر اپنا دل فدا کردو۔ یہ مشورہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ دل سوائے اللہ والوں کے کسی کو مت دو کیوں کہ اللہ والے تمہارا دل لے کر تمہیں اللہ سے ملادیں گے۔ وہ تمہارا دل لے کر چاٹیں گے نہیں اور نہ تم سے کچھ لیں گے، وہ کیا کریں گے تمہارا دل لے کر۔ لیکن اگر تم نے ان کو دل دے دیا تو وہ اپنے ساتھ تمہارے دل کو ملاکر جب اللہ کے حضور حاضر ہوں گے تو تمہارا دل بھی حاضر ہوجائے گا۔ ان کی حضوری آپ کے دل کی حضوری کا سبب بن جائے گی کیوں کہ آپ نے ان کے دل کے ساتھ اپنے دل کو نتھی کردیا، پیوند کردیا۔ جب ان کا دل اللہ کے حضور میں ہوگا تو تمہارا دل بھی حاضر ہوجائے گا۔ آہستہ آہستہ آپ صاحبِ نسبت ہوجائیں گے، آپ اپنے ایمان ویقین میں فرق محسوس کریں گے، عبادت کی لذت میں فرق محسوس کریں گے۔ آپ بتائیے جب آپ لوگ پہلے پہلے آئے تھے تو اس وقت کی حالت میں اور آج کی حالت میں کچھ فرق محسوس کررہے ہیں یا نہیں؟ بس دیکھ لیجیے۔ ماں کا دودھ پیتے ہی پہلے دن پتا نہیں چلتا کہ بچہ کتنا بڑا ہوا؟ اگر روز کا روز فیتہ لے کر