Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

58 - 66
حدوں کو پار کر چکی ہے، ظلم و جہل پوری آب و تاب کے ساتھ ظہور پذیر ہو چکا ہے، اِنسانیت کی تمام قدریں پامال ہو چکی ہیں، علم واِنصاف سرِ عام فروخت ہو رہا ہے۔ اَلغرض اِنسانی حیات کا کوئی گوشہ  ایسا نہیں جس میں اِن ظالمانہ سسٹموں نے اپنے نا پاک جراثیم نہ چھوڑے ہوں اور اُن کے منحوسانہ اَثرات سرایت نہ کیے ہوں، مزید یہ کہ دُنیا کے اِقتدار پر براجماں یہ تمام جتھے اِن تمام حالات کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیتے ہیں اِس لیے کہ اُنہیں معلوم ہے کہ ہماری جگہ دُنیا کی اگر کوئی قیادت صلاحیت اور فکر رکھتا ہے تووہ سسٹم'' اِسلام'' ہے۔ 
٭  پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہم اِس غلامی سے نجات کیوں نہیں پارہے  ؟  
یہ بڑا دالخروش موضوع ہے، اِس کی کئی وجوہات ہیں، سب سے اوّل یہ کہ ہم نے دین و دُنیا کی تقسیم میں خلافت و سیاست کی اِلٰہی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لی اور مذہب ِاسلام کو چند اعتقادات اور عبادات تک محدود تسلیم کر لیا ہے اور ذلت و غلامی کی زندگی پر سمجھوتہ کر بیٹھے ہیں اور اِسے اپنا مقدر تسلیم کر کے بے یار و مدد گار ہو چکے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ہماری قوم کو اپنی غلامی اور ذلت و پستی کا احساس تک نہیں ہے، وہ سر حدوں اور اپنی ہی طاقت کی تقسیم کے دن کو'' یوم آزادی'' کے طورپر مناتے ہیں جس قوم کی نہ معیشت آزاد ہو نہ سیاست اپنی ہو، عدالتی نظام اپناہونہ تعلیمی نظام اپنا ہو، فکر اپنی ہو    نہ تہذیب اپنی ہو، وہ قوم کیسے آزاد قوم کہلا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ہمیں دوست اور دشمن میں اِمتیاز نہیں جو ہمارے مخلص خیرا خواہ اور غم خوار ہیں اُنہیں ہم دیکھنے اور سننے کے لیے تیار نہیں اور ہمارے زعم میں اُن کو ہمارا دشمن بنا دیا گیا ہے اور جو ہمارے حقیقی دشمن ہیں اُنہیں ہم اپنا خیر خواہ مان رہے ہیں اُن کی تہذیب اُن کی تعلیم سب کے مقلد اور مر عوب ہیں، ہم خود اعتماد ی کے شدید فقدان میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دُنیاکی راہنمائی کے اہل نہیں ہیں اور شدید احساسِ کمتری کا شکار ہیں کہ اِس جدید دورکے لیے ہمارے پاس دُنیا کی راہنمائی کے لیے کوئی فکر نہیں ہے، ہمارے دشمنوں نے ہم سے ہماری متاع قرآن و حدیث اور اُن کا پیغام پھیلانے والی طاقت (نو جوان) چھین لیا ہے اور انہیں اپنی تعلیم سے آراستہ پیراستہ کرکے اپنا  ہمنوا بنالیا ہے اور بے راہ روی کا شکاربنا لیا ہے۔ 
Flag Counter