Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

21 - 66
خلاصہ    اور    موازنہ  : 
گفتگو بہت طویل ہوگئی اَب اِس کاخلاصہ ملا حظہ فرمائیے اور دُنیا کے دُوسرے نظاموں اور اِزموں سے موازنہ بھی کیجیے ۔ 
(١)  سر مایہ داری کا دشمن اِسلام بھی ہے، اِس کو سرمایہ داری سے اِنتہائی نفرت ہے وہ اِس کو  ختم کرتا ہے اور اِسلام کے اُصول پر جو نظام قائم ہو اُس کا پہلا فرض قرار دیتاہے کہ وہ سرمایہ داری کو  ختم کر دے مگر وہ سرمایہ داری کے خاتمہ کوپورے نظامِ حیات کا ایک جزء قرار دیتا ہے، اُس کا یہ تصور  نہیں ہے کہ اِنسانی زندگی کی فلاح و بہبود اور اُس کی کامیابی صرف سرمایہ داری کے خاتمہ میں منحصر ہے خواہ وہ کسی صورت سے ہو۔ 
(٢) اِسلام کوجس طرح سرمایہ داری سے نفرت ہے اِس کو معاشرہ اورسماج کی دُوسری برائیوں سے بھی نفرت ہے، اِسی طرح وہ تخریب اور فتنہ و فساد کو بھی گوارا نہیں کرتا، وہ جس طرح مزدور اور غریب کے حق میں ظلم کو حرام اور ناقابلِ برداشت جرم قرار دیتاہے اِسی طرح اُن کے حق میں بھی کسی طرح کا ظلم روا نہیں رکھتا جن کوسرمایہ دار یا دولتمندکہا جاتا ہے، وہ ہر ایک کے حق میں عدل اور اِنصاف کو ضروری قرار دیتاہے۔ 
(٣)  اور ایسے تمام پرو گرام اِسلام کی نظر میں ناقابلِ برداشت ہیں جن سے اَمیر اور غریب  یا سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان طبقاتی جنگ یا باہمی نفرت پیدا ہو۔ 
(٤)  وہ اِنسانیت کے رشتہ کوسامنے رکھ کر سب سے پہلے دولتمند کے اُن جذبات کوبیدار کرتا ہے جن کو اِنسانیت کی خصوصیات قرار دیاجاتاہے، دُوسروں کی ضرورت کو محسوس کرنا اور اپنی ضرورت اور کم اَز کم اپنے مفاد پر دُوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا اِس کو''اِیثار'' کہا جاتاہے، حیاتِ اجتماعی کی فلاح و بہبود اور ترقی کے سلسلہ میں ''جذبہ ٔ اِیثار'' بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اِسلام سب سے پہلے اِس جذبہ کو پیدا کرتا ہے اِس کے آداب و لوازمات کی تعلیم دیتا ہے۔ 
Flag Counter