Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

15 - 66
 بھی اپنا وجود رکھتی ہے اِس وجود کا عکس بھی پڑتا ہے پس ہمارا یہ خیال یقینا غلط ہے کہ عمل کا اپنا وجود کچھ نہیں ہے بلکہ تحقیق یہ ہے کہ عمل اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ 
 سائنس کا جہل  :
محققین ِ سائنس یہ نہیں بتا سکے کہ اِس وجود کا تعلق جس طرح فضا ء سے ہے آیا ہماری باطنی قوتوں اور ہماری اُس حقیقت سے بھی اِس کا کچھ تعلق ہے جس کو رُوحانیت سے تعبیر کیا جاتاہے جو  موت پر فناء نہیں ہوتی بلکہ ایک نئی زندگی اِختیار کر لیتی ہے  ؟  سائنس کے اَصحابِ تحقیق شاید اِس سوال کا جواب آئندہ بھی نہ دے سکیں  !  !  کیونکہ رُوح رُوحانیت اور ما بعد الموت اُن کا موضوع نہیں ہے اُن کا موضوع وہ مادّہ ہے جو عالَمِ مشاہدہ میں اِس وقت موجود ہے لیکن ہمارا وجدان شہادت دیتا ہے کہ عمل کے وجود کا تعلق ہماری رُوحانیت سے یقینا ہے اور بہت گہرا تعلق ہے، ہمارا عمل خودہمارے اَندر کبھی مسرت اور خوشی کی لہر دوڑا دیتا ہے اور ہماری رُوح کو مطمئن کر دیتا ہے اور کبھی ہمارا عمل ہمارے اَندر غم، پریشانی اور اِضطراب وبے چینی کا طوفان بر پا کر دیتا ہے، اگر عمل کا تعلق رُوحانیت اور اُن معنوی قوتوں سے نہیں ہے جوہمارے اندر موجودہیں تو پھر اِس اِضطراب وبے چینی یا سکون اوراِطمینان کی وجہ کیا ہے  ؟  ؟  اور ایساکیوں ہوتا ہے کہ کسی عمل پر ہم مسرور اور مطمئن ہوجاتے ہیں اورکسی پر ہم پچھتاتے اور غمگین ہوتے ہیں یہاں تک کہ بیمار پڑجاتے ہیں۔ 
رُوحانیت کے وہ ماہر جن کی پیدائش ہی اِس لیے ہوتی ہے کہ وہ رُوحانیت کی باتیں بتائیں چنانچہ شروع ہی سے اُن پر رُوحانیت کا غلبہ یہاں تک رہا کہ کبھی اُن سے رُوحانیت اور سچائی اور اعلیٰ اَخلاق کے خلاف کوئی فعل سرزد نہیں ہوا ،جن کی فطری بیداری اور قدرتی فکر و بصیرت کا یہ عالَم رہا کہ  کبھی کسی نے کسی کالج یا یو نیورسٹی میں تو کیا کسی مکتب اور پرائمری اسکول میں بھی تعلیم نہیں پائی اور اِس کے باوجود اُنہوں نے نوعِ انسان کو وہ سبق دیے کہ اُن کی بنیاد پر اعلیٰ اَخلاق، شریفانہ کردار، اِنسانیت کی فلاح و بہبود اور اَمن ِعالَم کے بنیادی اُصول مرتب کیے گئے جن کو اَقوام ِعالَم نے ضابطہ ٔ حیات بنایا اور دُنیا کے دانشوروں نے اُن سے ہر طرح کے قانون اَخذ کیے، یہ اعلیٰ اَخلاق و کردار کے حامل
Flag Counter