Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

57 - 66
کرسکتے،اِن اَقوام کی تمام تر کو شش یہ ہے کہ تمام دُنیا پر اُن کی بالا دستی قائم ہوجائے تاکہ اِنہیں اپنا    غلام رکھا جا سکے۔ 
مسلمانوں نے اپنے دور میں دُنیائے اِ نسانیت کو اَمن اور خوشحالی دی، اگرچہ سائنسی ترقیات ابھی اِس نہج پر نہ پہنچی تھیں لیکن اِس کے باوجود مسلمان بے شمار قوموں کو ساتھ لے کرچلے، یورپ نے اپنی ترقیات کو اِنسانیت کی خدمت کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اُن پر ظلم ڈھانے اور انہیں غلام رکھنے میں استعمال کیا، مزید یہ کہ یورپین اَقوام نے یہ تر قیات ہمارے علوم و فنون سے کیں اور اُن پر تجربات اور اُن کے پھیلاؤ کے لیے ہمارا غصب شدہ سرمایہ صرف کیا اور پھر بعض مہلک تر قیات کا تجربہ بھی ہم پر کیا۔ 
بہرحال یہ دونوں نظام ناکام ہو چکے ہیں اور اب یہ بقاء کی جنگ میں مصروف ہیں اور اُن کی تباہی اور ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یہ تعلیماتِ ربانی کی راہنمائی سے نا بلد ہیں اور مخلوق کی ذاتی اِختراع کواِس میں دخل ہے، اِن ظالموں نے ہمارے ساتھ مزید ظلم یہ کیا کہ ہمیں ہماری ہی نظروں سے گرا دیا اور ہماری نظروں سے ہمارے ہی سر مایہ کو حقیر و بے اہمیت کر دیا چنانچہ ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مسلمان کسی مہلک مرض کا شکار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بیمار ضرور ہیں لیکن اُن کی یہ بیماری عارضی اور قابلِ علاج ہے اور وہ عارضی بیماری مایوسی، بے ہمتی اور بے بضاعتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہم اپنی قدر کو جانیں اور اپنے سرمایہ (قرآن و حدیث، فقہ اور مکمل اِسلامی نظامِ حیات) کی قدر ومنزلت اور اُس کے علوم سے بہرہ ور ہوں۔ دُنیائے اِنسانیت آج سارے نظاموں سے مایوس ہو چکی ہے اور وہ کسی نجات دہندہ سسٹم کی متلاشی ہے، قسم ہے اللہ رب العزت کی کہ وہ نظام صرف اور صرف ''اِسلامی نظام'' ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ بامِ عروج کیسے نصیب ہو جس سے اِنسانیت سکھ کا سانس لے۔ 
٭  چو تھا پہلو یہ ہے کہ اِس زوال اور غلامی کے اَثرات کیا ہیں  ؟
اِس عنوان کے کچھ پہلوؤں کی کچھ جھلک دکھلائی گئی ہے مزید بر آں یہ کہ اِس وقت کل اِنسانیت جسمانی اور رُوحانی حوالہ سے مضطر اور بے چین ہے، امن و اَمان عنقا ہو گیا، ساری کائنات عدمِ تحفظ کا شکار ہے، عدل و اِنصاف کے تمام تقاضے روندے جا رہے ہیں، بے حیائی اور بے غیرتی تمام
Flag Counter