Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

56 - 66
امن واَمان تباہ و برباد ہو جاتا ہے، مجبور و حریص لوگ چوری، ڈکیتی، فراڈ اور رشوت اِختیار کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اِس نظام نے اپنی ظالمانہ چال ڈھال سے زندگی کے تمام شعبوں میں درندگی اور حیوانیت ِ محضہ کواُبھارا ہے۔ 
سر مایہ دارانہ نظام کے ظالمانہ دستبرد نے مزدوروں اور غریبوں میں بیداری کی لہر دوڑادی  لہٰذا اِنقلاب کے نام پر جدید معاشی نظام (اِشتراکیت) متعارف کرایا گیا لیکن اِس کے فلسفہ کی بنیاد میں خدا سے اِنکار اور اِلٰہیات سے نفی سرِ فہرست ہے اور اِس اِنکار کی علت بھی در اصل سر مایہ دارانہ ذہنیت کے حامل گروہوں کی چال ہے جنہوں نے مذاہب کو حکومتیں چلانے اور قوموں پر اِقتدار حاصل کرنے کے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا لیکن اِس لادینی فلسفہ کے ساتھ اِسلام کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔  مزید بر آں یہ کہ اِس جدید اِقتصادی سسٹم میں اِنفرادی ملکیت (جو اِنسانی قوائے عملی میں زبردست تحریک پیداکرتی ہے) کااِنکار کیاگیا جس سے عوامی عدم دلچسپی کی بنا ء پر اِنفرادی اور اِجتماعی معاشی نقصان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ 
دُنیائے اِنسانیت نے دونوں نظاموں کو دیکھ لیا ہے اور وہ اِن سے سخت مایوس ہے اور اِنسانیت پھر کسی نجات دہندہ سسٹم کی متلاشی ہے جو اُن کی رُوحانی اور جسمانی ضرورتوں اور تقاضوں کو برلائے اور اطمینان کا باعث ہو۔ باقی یورپ کی جو موجودہ ترقیات ہمیں نظر آرہی ہیں اور ہماری آنکھیں اُن سے چندھیا گئی ہیں یقینا اُن اَقوام نے ستاروں پر کمندیں ڈال رکھی ہیں اور زمین اپنے تمام خزانے اُن کے سامنے اُگلنے پر مجبور ہے اور سمندر کی گہرائیوں تک اُن کی رسائی ہے لیکن یورپ کی اِس مادّی ترقی کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ دُنیا بھر کے اِنسانوں کے دُکھوں کا مداوا کرتے اور اِنسانیت کو ظلم سے نجات دلاکر امن، خوشحالی اور تر قیات سے ہمکنار کرتے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ لاکھوں لوگ بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے ہیں جبکہ اُن کے گوداموں میں کروڑوں من گندم کا ذخیرہ ہے لیکن یہ ذخیرے ایشیاء اور افریقہ کے عوام تک نہیں پہنچتے کہ کہیں یہ لوگ آزاد نہ ہوجائیں، میڈیکل سائنس کی ترقی کے سامنے اَمراض گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں لیکن کروڑوں لوگ غربت کے سبب اِس ترقی سے اِستفادہ نہیں
Flag Counter