Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

55 - 66
 تو اِس بارے میں پہلی بات تویہ ہے کہ یہ سسٹم اِنسانی اِختراعات پرنہیں بلکہ خالق کی تجاویز پرمبنی ہے اور خالق ہی در اصل مخلوق کے ظاہری اور پوشیدہ منافع سے واقف ہے۔ اِسلامی نظام میں اِنسان کے دونوں مرکبات مادّہ اور رُوح کے تقاضوں کو پیش ِ نظررکھا گیا ہے اور یہ کہ اُس کی اساس صدق ووفا، عدل و اِنصاف، اَمانت ودیانت، تقویٰ و طہارت ، علم وعمل، اِخلاص وللّٰہیت، اِیثار و قربانی، عفو و در گزر، حبِّ خدا اورخوفِ خدا اِنسانیت دوستی پر مبنی ہے۔ اِسی کا نتیجہ تھا کہ اِسلامی دور میں تمام اِنسانوں کوبلا تفریق ِرنگ و نسل ومذہب، تعلیم، امن و اَمان، معاشی خوشحالی وفارغ البالی، عدل واِنصاف، علاج معالجہ، روزگار، رہائش، صاف ستھرا ماحول، اُلفتوں اور محبتوں سے بھر پور دیہی و شہری زندگی، مساوات کی بنیاد پرذرائع معاش تک دسترس، اَلغرض اُنہیں اُن کے تمام حقوق اُن کی دہلیز پر ملتے تھے اور اِنسانیت بڑے سکھ کے ساتھ جیتی تھی۔ 
٭  تیسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں دُنیا کی قیادت کرنے والے سسٹم کون سے ہیں اور اُن کی ناکامی کے اَسباب کیا ہیں  ؟
 تو اِس بارے میں عرض ہے کہ دُنیا سے اِسلامی نظام کو تہہ و بالا کر کے جو قومیں پیشروبنیں اُنہوںنے سب سے مقدم سر مایہ داری نظام متعارف کرایاجن کا نقطۂ نظر صرف اور صرف اِقتدار اور مال کا ہوس ہے، اِن دونوں میں بھی پھر اصل مال یعنی سرمایہ کا حصول ہے، اِقتدار بھی اُن کے ہاں سرمایہ ہڑپ کرنے کا ایک سود مند نفع بخش کارو بار ہے۔ اِس نظام کی بنیاد حرص، ہوس، سود، ذخیرہ اَندوزی، مصنوعی قلت، دھوکہ ،فراڈ، اَلغرض یہ اور اِس جیسے دیگروہ تمام حربے جو اِنسانوں کے اِستیصال کے لیے کارگر ثابت ہو سکتے تھے اِختیار کیے جاتے ہیں۔ اِس نظام میں اِنسانی عزت ووقار، شرف وعظمت، ترقی و رفعت کا سبب سرمائے کوقرار دیا جاتا ہے جس سے حرص و بخل اور دیگر تمام رزائل پیدا ہوتے ہیں،معاشرہ ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور ایک مخصوص طبقہ کی خوشحالی، عیش پسندی، راحت کوشی کی خاطر کروڑوں اِنسانوں کے مفاد و مصالح کو بھینٹ چڑھا کر عام کساد بازاری اور بے روز گاری پیدا ہوجاتی ہے، جس معاشرہ میں حکمران طبقہ اپنے اَندھے قوانین کے ذریعہ مصنوعی قحط پیدا کردے وہاں
Flag Counter