Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

52 - 66
دین اِسلام چونکہ اِنسانیت کی مکمل (دُنیا وآخرت) کی فلاح و بہبود کا داعی اور ضامن ہے  اِسی بناء پر قوانین اِلٰہی پر مبنی اِس کائنات میں موجود صحیح اور محفوظ ترین کتاب اللہ (قرآنِ مجید) اِجتماعی اوراِ نفرادی معمولات اور اُمور میں دستور العمل اور سنتِ رسول اللہ  ۖ  کو طریق العمل بنانے کی ہدایت کرتا ہے، داعی اِلی اللہ حضرت محمد رسول اللہ  ۖ نے خود دیگر داعین کے لیے دُنیائے اِنسانیت اور اَقوامِ عالَم کو دعوت دینے کاجو طریقہ کار تجویز کیا وہ اِسی طرز پر ہے کہ اوّلاً ایسے راستہ پر چلنے کی  دعوت دی جائے جس پر چل کر دونوں جہانوں کی کامیابی یقینی ہے اور وہ یہ ہے کہ اِسلام میں کامل طور پر داخل ہوجاؤ اور اِس دینی و ملی جدو جہد میں ہمارے شریک ِکار بن جاؤ اِس سے ہمارے مابین اُخوتِ اِسلامی کا مضبوط رشتہ بھی قائم ہوگا اور اِس دُنیا میں ہماری قومیں ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر کے بامِ ِعروج حاصل کریں گی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے آخرت میں جو عظیم نعمتیں مخفی رکھی ہیں وہ بھی ہمیں عطا فرمائیں گے۔ معلوم ہوا کہ قبولِ اسلام دُنیا وآخرت کی سلامتی کا باعث ہے اور اِس سلامتی کو حاصل کرنے کی دعوت بلااِمتیاز ہے اِس کے حصول کی راہ میں عرب و عجم، علاقائیت، لسانیت، قومیت، رنگت کچھ بھی رُکاوٹ نہیں۔ 
پھر اگر کوئی قوم یا فرد اِس دعوت کو رَد کردے اور اپنی اَبدی فلاح و بہبود کو تج دے تو چونکہ   دین اِسلام ''تسلیم و رضا'' کے لیے ''راہ ِ اِکراہ'' کا قائل نہیں اور داعی ٔ حق بھی اِس کے مکلف نہیں کہ وہ بہر صورت اپنی دعوت پراُنہیں مجبور کریں بلکہ اُن کے ذمہ ترغیب و ترہیب ہے کہ وہ پورے درد اور   فکر مندی کے ساتھ اپنافریضہ بجالا تے رہیں، ہدایت اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہے وہ جب جسے چاہیں عطا فرمائیں لہٰذا اِنہیں ثانیاً اِس بات کی دعوت دی جائے کہ قوانین ِالٰہی کے مطابق سماج کی درست خطوط پر جو تشکیل رُوبہ عمل ہے اُسے بہر صورت قبول کریں اور سالانہ جزیہ دے کر براہِ راست عادلانہ نظام سے مستفید ہوں۔ 
کسی بھی سسٹم کے اچھے برے اَثرات براہِ راست عوام پر اَثر اَنداز ہوتے ہیں، جس سسٹم کے اَثرات برائی کی صورت میں سامنے آئیں تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظام عوام دشمنی کے
Flag Counter