Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

53 - 66
اُصولوں پر مبنی ہے اور اِس نے اِنسانی خوبیوں کو خامیوں میں بدل کر اُن کی صلاحیتیں بگاڑ دی ہیں اور جس آبادی میں بگڑی صلاحیتوں والے لوگ آباد ہوں وہ دُنیائے اِنسانیت کے لیے رگوں میں دوڑنے والے کینسر زدہ خون کی طرح ہیں جو ہلاکت کی دُہائی دے رہا ہے اِس لیے تعلیماتِ ربانی اور اِنسانیت دوستی پرمبنی سسٹم کوبہر صورت قبول کرو، یہی فطرت ِسلیمہ کا تقاضا ہے۔ 
پہلے معاملہ میں اِختیار اِس لیے دیا گیا کہ وہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے اِس کے عدمِ قبول کے اَثراتِ بد (جو نہایت ہی بھیانک ہیں) براہِ راست مخلوق پر نہیں پڑتے جبکہ دُوسری شق میں عدم ِاِختیار اِس بنا ء پر ہے کہ اِس کے عدمِ قبول کے اَثراتِ بد دیگر مخلوق پر بھی پڑتے ہیں اور اِس معاملہ میں خود خالق کی طرف سے رُو رعایت کی اِجازت نہیں ہے، سالانہ جزیہ جو عائد کیا گیا ہے یہ اُس سسٹم کو چلانے کے لیے ہے جس کے منافع پوری قوم تک پہنچنے ہیں اور دُوسرے الفاظ میں دیگر تر تیبوں کے ساتھ اوّل شق کو قبول کرنے والوں پر بہت کچھ (زکوة، صدقات، عشر وغیرہ کی) ذمہ داری عائد ہے۔ 
دعوت کے اِن دونوں پہلوؤں پر قدرے روشنی کے بعد یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ وہ طبقات جو دین اِسلام کو محض اُخری فلاح و بہبود کے نقطۂ نظر کے طورپر دیکھتے اور پیش کرتے ہیں اور اُسے عبادات تک محدود رکھتے ہیں یا اِنفرادی دین کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ دین ِاسلام کے ہمہ گیر اور وسعتوں کے حامل منشور سے نا بلد اور نا آشنا ہیں، حالانکہ اُخروی کامیابی حاصل کرنے نہ کرنے میں ہر اِنسان مختار ہے جبکہ دُنیاوی کامیابی حاصل کرنا جبراً ہے، اگرچہ یہ بات بھی بدیہی ہے کہ دُنیا میں جبراً کسی صالح اور عادل نظام کی ماتحتی میں رہنے سے کسی قدر اَمن واطمینان رہتاہے، کامل اطمینان تو مکمل طور پر اِسلام میں داخل ہونے میں ہی مضمر ہے اِس لیے کہ اِنسان مادّہ و رُوح سے مرکب ہے تو دُوسری شق قبول کرنے کی صورت میں صرف مادّہ (جسم) کو کسی قدر اطمینان رہے کہ صالح اور عادل سسٹم کی    ذمہ داری میں آنے کی بناء پر دُوسروں کے ظلم و تعدی سے اُس کی جان ومال، گھر بار، کاروبار محفوظ ومامون ہوگا، رُوح بہرحال اِس صورت میں بھی مضطرب رہے گی پھر اِن دونوں (جسم و رُوح) کاجو باہمی ربط ہے اِس تنا ظر میں رُوح کی اِضطرابی حالت کے اَثرات جسم پر بھی مرتب ہوں گے اور وہ
Flag Counter