Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

45 - 66
اور دُوسری وجہ یہ ہے کہ دو حیثیتیں قرآن میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی اِن دونوں کے اَحکام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں اور نہ ہی کہیں تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرام نے حضور علیہ السلام کے ساتھ دو مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے دو قسم کے معاملات کیے ہوں بلکہ آپ کا ہر فعل بحیثیت ِرسالت تھا آپ معلّم ومزکی بھی تھے، آپ شارحِ کتاب اللہ اور قاضی بھی تھے، آپ شارح قوانین ِ شریعت اور حاکم و فرمانروا    بھی تھے، لیکن سب کچھ بحیثیت ِرسالت تھے گویا کہ یہ سب کام اَجزائے رسالت اور اُس کے مختلف  شعبے تھے اور من جانب اللہ یہ تمام اُمور فرائض ِرسالت میں سے تھے لہٰذا اِن میں سے کسی بھی کام کو حیثیت ِ رسالت سے جدا کر کے تصور نہیں کیا جاسکتا اور اِسی حیثیت ِرسالت سے آپ کی پیروی اور اِطاعت فرض ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنی عادتِ مستمرہ ذکر فرماتے ہیں  : 
( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ) ( سُورة النساء  :  ٦٤)
''ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگراِس لیے کہ اُسکی اِطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے''
مگر تعجب ہے منکرین ِحدیث پر جو کہ بڑئے فخر سے اپنے آپ کو'' اہلِ قرآن'' کہتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ اِتنی واضح آیت کے ہوتے ہوئے بھی یہ کہتے ہیں کہ رسول کی اِطاعت ہی نہیں کی جاتی  ع 
چہ دلاور ست دُزدے کہ بکف چراغ دارد 
یہ تو تھا اِطاعت ِ رسول کا اِثباتی پہلو، اَب چند وہ آیات بھی ملاحظہ فرمالیں جن سے اِطاعت  نہ کرنے پر اَنجامِ بد کا پہلو بھی سامنے آجائے  والعیاذ باللہ  !
( وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُوْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا) (الاحزاب  :  ٣٦)
''جب خدا ورسول کسی معاملہ کا فیصلہ کردیں تو پھر کسی مومن مرد یا عورت کو اپنے معاملہ میں کوئی اِختیار باقی نہیں رہتا اور جو اللہ اور اُس کے رسول کے اَحکام کی نافرمانی کرے تو وہ یقینا صریح گمراہی میں جا پڑا۔ ''
Flag Counter