Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

44 - 66
حیثیت رکھتی تھی بخلافِ اِطاعت اُمراء کے۔ اگر منکرین ِ حدیث کے قول کے مطابق اِطاعت ِرسول سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اُن اَحکام کی اِطاعت کی جائے جو صاف اور واضح طور پر قرآنِ پاک میں موجود ہیں تو پھر (اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ) کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا کیونکہ یہی معنی تو (اَطِیْعُوا اللّٰہَ)  کے ہیں لہٰذا اِس کا مطلب اِس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ اِطاعت ِرسول کی ایک مستقل حیثیت ہے یعنی آپ کے ہر حکم کااِتباع کیاجائے خواہ اُس کی اصل قرآن میں ہمیں ملے یا نہ ملے، اِس کا مطلب یہ نہیں کہ بعض سنتوں کی اصل قرآن میں نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِس کا مکلف ہی نہیں بنایا کہ ہم رسول کے حکم کی اصل قرآن میں تلاش کریں بخلاف اِطاعتِ اَمیر کے کہ وہ اُسی وقت کی جائے گی جبکہ اُس کے حکم کی اصل قرآن یا سنت ِ رسول میں پائی جائے۔ اِس سے اِطاعتِ رسول کے مستقل ہونے اور اِطاعتِ اَمیر کے غیر مستقل ہونے کے معنی خوب واضح ہو گئے۔ 
باقی رہا منکرین ِ حدیث کااِطاعتِ رسول سے اِطاعتِ اَمیر مراد لینا  ١  تو نہ معلوم یہ کون سی لُغت ہے لیکن بہر حال یہ عجیب و غریب ہی لُغت جو (اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ) کے معنی تو بدل کر رکھ دیتی ہے اور منکرین ِحدیث کی بگڑی ہوئی قسمت بنا دیتی ہے لیکن (اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ) میں اپنا کوئی کرشمہ نہیں دکھاتی، ورنہ کیا وجہ ہے کہ رسول پر اِیمان لانے کے معنی اَمیر پر اِیمان لانے کے  نہیں کیے جاتے۔  ع
بریں عقل و دانش بباید گریست 
اور منکرین ِحدیث کا حضور  ۖ  کی ذاتِ اَقدس میں وہ حیثیتیں نکالنا اور یہ کہنا کہ پیغمبری اور رسالت کی حیثیت سے رسول کا اِتباع نہیں کیا جاتا بلکہ ایک اَمیر ہونے کی حیثیت سے آپ کا اِتباع لازم ہے  ٢  لہٰذا آپ جب تک اَمیر تھے آپ کا اِتباع ضروری تھا اور دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جو اَمیر ہوگا اُس کی پیروی کی جائے گی کیونکہ اِتباعِ رسول کا زمانہ ختم ہو گیا تو یہ سراسر تحریف ِقرآن ہے کیونکہ جب اَحکامِ قرآنیہ قیامت تک آنے والے تمام اِنسانی اَفراد پر لاگو ہیں اور اُن پر اَحکام ِ قرآنیہ کا اِتباع ضروری و فرض ہے تو اِطاعت ِ رسول کو صرف زمانہ ٔ حیات نبوی میں کیونکر محصور اور مقید کیا جا سکتا ہے  
  ١   مقامِ حدیث ص ٦٥    ٢   ملاحظہ ہو مقامِ حدیث ص ١٢٨
Flag Counter