Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

43 - 66
''اے مومنین اِطاعت کرو اللہ کی اور اِطاعت کرو رسول کی اور اپنے حکام کی پھر اگر تم جھگڑا کرو کسی معاملہ میں تو اُسے خدا و رسول کے سامنے پیش کرو۔''
اِس آیت میں تین اِطاعتوں کا ذکر ہے  :  (١) اللہ کی اِطاعت (٢) رسول کی اِطا عت   (٣) اُمراء کی اِطاعت۔ اگر رسول بھی ایک مرکز ملت یعنی اَمیرکی حیثیت رکھتاتھا تواِطاعت ِرسول کو اِطاعت ِاُمراء سے علیحدہ ذکر کرنے کے کیا معنی  ؟  لہٰذا اِس سے معلوم ہوا کہ رسول کی حیثیت اور اُس کا مقام اُمراء سے بلند و بالا اور خدا سے نیچے ہے نیز یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی اِطاعت کی طرح رسول کی اِطاعت بھی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے اِس کے بر عکس اِمام اور اَمیر کی اِطاعت اِطاعت ِ مستقلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اَمیر کا حکم قرآن و سنت ِثابتہ کے خلاف ہو تو اُس کی اِطاعت نہیں کی جائے گی اور اِسی کو واضح کر نے کے لیے رسول کے ساتھ ( اَطِیْعُوْا)کا لفظ مکرر لایا گیا ہے اور اِطاعت ِاَمیر کو خدا  ورسول کی اِطاعت کے ماتحت کر دیاگیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اُمراء سے منازعت ہو سکتی ہے لیکن  اللہ اور اُس کے رسول سے منازعت کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ 
اور نیز یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ بصورت ِ منازعت فیصلہ کرانے کے لیے مرجع دو ہیں: ایک  اللہ تعالیٰ اور دوم اُس کا رسول، پس جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف مراجعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اُس کی کتاب کی طرف مراجعت کی جائے بعینہ اِسی طرح رسول کی طرف مراجعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی سنت کی جانب مراجعت کی جائے۔ اگرچہ آپ کے زمانہ میں آپ کی ذاتِ اَقدس کی طرف  بھی مراجعت کی جاتی تھی لیکن بایں ہمہ اکثرو بیشتر زمانہ ٔ رسالت میں بھی پیش آمدہ مسائل میں حضور   علیہ السلام کی سنت اور اَحادیث کی طرف مراجعت ہوتی تھی کیونکہ یہ غیر ممکن تھا کہ پورے جزیرہ عرب کے تمام لوگ ہر مسئلہ میں حضور علیہ السلام کی طرف رجوع کریں اِس لیے حضور علیہ السلام کے مقرر کردہ حکام اور قاضی اور جو لوگ آپ کی خدمت ِاَقدس میں رہ کر مسائل سیکھ لیتے تھے اپنے اپنے علاقوں میں جاکر دُوسرے لو گوں کو آپ کے فرامین واِرشادات بتاتے تھے اور وہ لوگ اُن پر عمل کر تے تھے۔ 
بہر حال یہ بات واضح ہو گئی کہ اِطاعت ِ خدا وندی کی طرح اِطاعت ِ رسول بھی ایک مستقل
Flag Counter