Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

41 - 66
وہ جو بھی کہہ دیتے ہیں سب خواہشات ِنفس سے پاک اور جو کرتے ہیں وہ سب نیکی ہی نیکی ہوتی ہے اِس لیے اُن کی ہستی آنکھ بند کر کے قابلِ اِتباع ہوتی ہے سوائے اُن اُمور کے جو نبی کے ساتھ خاص ہوں (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة) ١  تمہارے لیے حضور علیہ السلام کی ذاتِ اَقدس میں بہترین نمونہ ٔ  عمل موجود ہے۔ 
تاریخ شاہد ہے کہ بعض کاموں میں صحابہ کرام نے حضرت اَبو بکر وعمر سے بھی پوچھ گچھ کی اور اُن سے اِختلاف کیا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ خلاف ِ شریعت ہونے کی صورت میں مر کز ملت کے کسی کام میں اِختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن نبی نے جو کہہ دیا اور جو کر دیا وہی شریعت بن گیا کسی دُوسرے کویہ مقام حاصل نہیں    
رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اَب ایسا دُوسرا آئینہ 	نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دُکانِ آئینہ ساز میں 
(١٠)  نبی کے قلب میں اُمت کی اِتنی محبت ہوتی ہے کہ اُمتیوں کو خود اپنی جانوں سے بھی نہیں۔  
( اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھُمْ)( سُورة الاحزاب  :  ٦)
''نبی مومنین کے ساتھ خود اُن کے نفسوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ ''
( لَعَلَّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ اَلاَّ یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ)( سُورة الشعراء  :  ٣)
''شاید آپ اپنی جان ہی ہلاک کر دیں گے اِس غم میں کہ وہ اِیمان نہیں لاتے۔ ''
(١١)  اُمت پر اُن کااِتنااِحترام واجب ہوتا ہے کہ اُن کی بیبیاں مومنین کی مائیں بن جا تی ہیں اور نبی کی وفات کے بعد اُن سے نکاح درست نہیں۔
 نبی کے سامنے آگے بڑھ کر کوئی بات کرنا اُمت کے لیے ممنوع ہے اور اُس کے سامنے اُونچی آواز سے بولنا عام اِنسانوں کی طرح آوازیں دینا تمام اَعمال کے ضائع ہوجانے کا سبب ہوتا ہے۔ 
(١٢)  خدائی محبت کا دعوی اُن کے اِتباع کے بغیر قابلِ قبول نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  : 
  ١   سُورة الاحزاب  :  ٢١
Flag Counter