Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

40 - 66
چونکہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کے عزائم اور اَفعال تو دَر کنار قلبی خطرات بھی قدرتِ اِلٰہیہ کے  زیر نگرانی رہتے ہیں اِس لیے اُمت اُن کے متعلق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے۔ رسول و نبی کے علاوہ کسی اور اَمیر و حاکم کے متعلق عصمت کا دعوی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ پیغمبر جس کے دلی وساوس اور خطرات بھی قدرتِ اِلٰہیہ کے زیرنگرانی رہتے ہوں اُس کو ایک عام اَمیر و حاکم کے برابر کر دینا اُس کی کتنی بڑی توہین ہے، لیکن کیاکیا جائے ہدایت دینا بندہ کے اِختیار میں نہیں      
گہر جو دل میں نہاں ہیں خدا ہی دے تو ملیں 
اُسی کے پاس ہے مفتاح اِس خزانے کی 
(٨)  اِس ربانی تعلیم و تربیت، عصمت اور ہمہ وقت کی نگرانی کی وجہ سے اُس کی جو بات ہوتی ہے خواہش ِنفس سے پاک اور صاف ہوتی ہے چنانچہ اِرشاد ہوتا ہے  : 
( وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o  اِنْ ھُو اِلَّا وَحْی یُّوْحٰی )(سُورة النجم  :  ٣ ، ٤)
'' وہ (نبی) خواہش نفسی سے نہیں بولتا، اُس کا بولنا نہیں ہوتا سوائے اُس وحی کے جو اُس پر بھیجی جاتی ہے۔''
 اِس آیت کو قرآن کے ساتھ خاص کرنا بد ترین قسم کی جہالت یا خیانت ہے کیونکہ قرآنِ پاک پڑھنے کے لیے تمام قرآن میں تلاوت یاقرا ء ت کا لفظ مستعمل ہوا ہے کسی بھی جگہ قرآن پڑھنے کے لیے لفظ نطق نہیں بولا گیا ہے ۔ 
دُوسری بات یہ ہے کہ (وَمَایَنْطِقُ ) کا مفعول محذوف ہے لہٰذا قاعدہ ٔ بلاغت کی رُو سے یہاں مفعول مقصود ہی نہیں بلکہ محض پاکیز گی نطق بتلانی مقصود ہے خواہ کوئی ساہی نطق کیوں نہ ہو ۔خواطر قلبی کی نگرانی اور پاکیزگی نطق سے لازم آتا ہے کہ اگر وہ اپنی رائے سے بھی کوئی فیصلہ کریں تو وہ بھی عین حق ہوگا جیسے کہ دُوسری آیت میں اِس کی تصریح بھی ہے۔ 
(٩)  خواہشاتِ نفس سے پاکیزگی، خطرات ورائے کی عصمت کی وجہ سے وہ عالَم کے لیے مجسم نمونۂ عمل بن جاتے ہیں، یہاں حق وناحق کی تفصیل، نیکی اور معصیت کی قسمیں سب ختم ہو جاتی ہیں
Flag Counter