Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

22 - 66
(٥)  اِنسان کو خود اپنی حقیقت نیز حیات بعد الموت اور فناء و بقاء کے فلسفہ کوذہن نشین کرا کر سرمایہ دار اور دولتمند کویقین دلاتاہے کہ غریب اور ضرورت مند کی اِمداد خود اُس کی اپنی اِمداد ہے، ضرورت مند کی اِمداد کر کے یاقومی ضرورتوں میں رقم خرچ کر کے اُس نے اِحسان ضرور کیا ہے مگر اِس کانفع دُوسروں سے زیادہ خود اُس کو پہنچ رہا ہے ،اگر بخل کر رہاہے توخود اپنے حق میں بخل کر رہاہے  قرآنِ حکیم کی چندآیتوں کاترجمہ پیش کیا جاتا ہے غور فرمائیے  : 
''دیکھو (سنتے ہو) تم کو بلایا جا رہاہے کہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں پھر تم میں سے کچھ ہیں کہ بخل کرتے ہیں (نہیں دیتے) تویاد رکھو جو بخل کر رہا ہے وہ بخل کر رہا ہے خود اپنے آپ سے ،اللہ بے نیاز ہے ضرورت مند اور محتاج خود تم ہی ہو۔'' (قومی اور ملی ضرورتیں خود تمہاری ضرورتیں ہیں جن کامفاد خود تمہیں پہنچے گا خدا کو اِس کی حاجت نہیں) ۔(سورۂ محمد  آیت ٣٨  )
(٦)  بخل، خود غرضی، حرص، طمع، حسد، کینہ اور بغض کا تعلق اگر چہ اَخلاق سے ہے لیکن    نظامِ اِقتصادی اور حیاتِ اجتماعی پر اِن کا اَثر دُور رس ہوتا ہے اِسلام اِن سب کو حرام قرار دیتا ہے،     یہ علتیں ختم کی جائیں اور اِن کی جگہ وسعت ِ نظر، فراخدلی، باہمی تعاون ،نوعِ اِنسان کی ہمدردی کے جذبات اِسی طرح اُبھارے جائیں کہ چور بازاری، رشوت، خیانت وغیرہ کے اِنسداد کے لیے   قانون کی ضرورت نہ ہوبلکہ خود دولتمند اور صاحب ِاِقتدار کے اندر وہ جذبہ پیدا ہو جواَفراطِ زر اور ناجائز   نفع اَندوزی کی اُمنگ ختم کردے، اِسلام یہ لائحہ عمل اِختیار کرتاہے اور اِسی کی تعلیم دیتا ہے۔
(٧)  خدا کاتصور اور پاداشِ عمل کا یقین اگرچہ کسی سیاسی یااِقتصادی نظام کاجزو نہیں بن سکتا لیکن اِس حقیقت سے بھی اِنکار نہیں ہو سکتا کہ اَذعان و یقین کی کیفیت درست اور اُستوار نہ ہوتو قانون کی اِفادیت بھی مکمل نہیں ہو سکتی، اِس لیے اِسلام سب سے پہلے نہاں خانہ ٔ دل کوتصورِ خداسے منور کرنا ضروری سمجھتا ہے، وہ جرائم پیشہ کہلاتے ہیں جوپولیس کے خوف سے جرم نہیں کرتے اور نفاق برتتے ہیں  ظاہر و باطن ہر ایک حالت میں جرائم سے وہ بچتا ہے جوخدا سے ڈرتاہے، دلوں میں خدا کا خوف ہو،
Flag Counter