Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2016

اكستان

20 - 66
 قضاء و قدر نے دیوالیہ قرار دے دیا جو دُنیا سے خالی ہاتھ رُخصت ہوا وہ کبھی دولتمندنہیں بن سکتا اَلبتہ اگر آپ نے قرآنِ حکیم کے اُصول پر اپنی زندگی کا بیمہ کرا لیا ہے تو اب آپ کی دولت پر کبھی زوال نہیں آسکتا یہ دولت دن بدن بڑھتی رہے گی۔ 
( وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَخَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًا)  ١
 '' اور جو آگے بھیجو گے اپنے واسطے کوئی نیکی اُس کو پاؤ گے اللہ کے پاس بہتر اور ثواب میں زیادہ۔''
ڈیپازٹ رقم پر آپ کو چار پانچ فیصدی سود ملتا ہے لیکن جو رقم آپ فی سبیل اللہ کے بینک میں جمع کراتے ہیں اُس کے نفع کی کوئی اِنتہاء نہیں ہے، قرآنِ حکیم یہاں بھی فلسفہ ٔ اِرتقاء جاری کرتاہے قرآنِ حکیم کی وضاحت یہ ہے کہ فی سبیل اللہ کے بینک میں جو رقم جمع کی جاتی ہے اُس کو صرف کھاتہ  میں درج نہیں کردیا جاتا بلکہ ایسا ہوتاہے کہ اُس کو تخم بنا کر ایک زرخیز کِشت زار  ٢  میں بوبھی دیا جاتا ہے زرخیز زمین میں گیہوں کی ایک نال پر سات بالیں آجاتی ہیں اور ایک ایک بال (خوشہ) میں سو سو دانے ہوتے ہیں، توایک دانہ سے سات سو دانے ہوجاتے ہیں یعنی اِنٹرسٹ (نفع) ستر ہزار فیصد ہوتاہے  اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اِس سے بھی زیادہ بڑھا دیتاہے (سورۂ بقرہ ) لیکن شرط یہ ہے کہ دولتمند   جو اِمداد کرے اُس میں خود غرضی کا شائبہ تک نہ ہو یہاں تک کہ اُس کو کبھی زبان پر بھی نہ لائے جس سے غریب اور ضرورت مند کو کمتری کا اِحساس ہو یا کوئی ذہنی اور دماغی کوفت ہو، قرآنِ حکیم نے تنبیہ کردی ہے کہ  
''جو شخص اپنا ذاتی مفاد سامنے رکھتا ہے یااِحسان جتانے کے لیے اُس کو زبان پر لاتا ہے وہ اپنے عمل کو خود برباد کر دیتا ہے، اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اُس مٹی میں بیج بودیا جو کسی چٹان پر جم گئی تھی بارانِ رحمت کی بوندیں جو کِشت زار میں تخم کو نشوونما بخشتی ہیں اُن کا عمل یہاں یہ ہوتاہے کہ وہ چٹان کے اُوپر سے مٹی بہادیتی ہیں    ساتھ ساتھ یہ بیج بھی بہہ جاتے ہیں اور صرف چٹان سامنے رہ جاتی ہے۔'' (سورۂ بقرہ) 
  ١   سُورہ مزمل  :  ٢٠     ٢  کھیتی ،ہرا بھرا کھیت
Flag Counter