لِکُلِّ عَمَلٍ شِرَّة وَلِکُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَة فَمَنْ کَانَ فَتْرَتُہ اِلیٰ سُنَّتِیْ فَقَدِ اہْتَدٰی ، وَمَنْ کَانَ فَتْرَتُہ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ فَقَدْ ہَلَکَ۔ (رواہ ابن حبان، المتجر الرابح ٥١)
''ہر عمل کا ایک نشاط کا وقت ہوتا ہے اور پھر نشاط کے بعد درمیانی وقت آتا ہے، پس جس کا اِعتدال کا وقت میریسنت پر گزرے تو وہ راہ یاب ہوگا اور جس کا یہ وقت سنت کے علاوہ خرچ ہو تو وہ مارا گیا۔''
اور خاص طور پر جب ماحول میں بگاڑ بڑھ جائے اور سنت پر عمل دُشوار ہوجائے یعنی سنت پر عمل کرنے والے کے لیے معاشرہ میں رہنا دُشوار ہو اور اُسے سنت کی وجہ سے ناگوار تبصرے سننے پڑیں تو ایسے ماحول میں جو شخص سنت پر مضبوطی سے قائم رہے گا اُس کے لیے بڑی فضیلت ہے چنانچہ ایک روایت میں نبی کریم علیہ الصلوٰ ةوالسلام نے اِرشاد فرمایا :
مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہ اَجْرُ شَہِیْدٍ۔( المتجر الرابح حدیث : ٥٠)
''جو شخص میری اُمت کے بگاڑ کے زمانہ میں میری سنت پر مضبوطی سے قائم رہے گا اُس کو ایک شہید کے برابر ثواب ملے گا۔''
اور بیہقی کے حوالہ سے بعض روایات میں سو شہیدوں کے ثواب کی بات بھی کہی گئی ہے۔ (الترغیب والترہیب ص ٧٩)
نیز سنت پر عمل کرنے کا ایک بڑا عظیم فائدہ یہ ہے کہ اِس کی بدولت جنت میں پیغمبر ں کی معیت ورفاقت نصیب ہوگی چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ۖنے اپنے خادم ِخاص حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ
''بیٹے اگر تم سے یہ ہوسکے تو ضرور کرلینا کہ تمہاری صبح وشام اِس حالت میں ہو کہ تمہارے دل میں کسی شخص کی طرف سے کوئی کینہ نہ ہو، اور یہ بات میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی تو وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔'' (مشکوٰةشریف )