کرے، اُس کی اِجازت کو شرط ِ اَوّل سمجھے اُس کو اپنے پاس اور اپنے قبضے میں رکھنے میں بھی اُس کے اَحکام کا پابند رہے پھر خرچ بھی مالک ِحقیقی کے مقرر کردہ اُصول کے مطابق کرے۔
اُس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی حیثیت سے اِس دولت کا مالک بھی تھاتواِیمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے نہ صرف اپنی دولت بلکہ خود اپنی جان بھی خدا کے ہاتھ بیچ دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُس کی جان اور اُس کامال سب کچھ خرید لیا ہے۔ (سورۂ توبہ آیت : ١١٠)
اِسلام کی شہنشاہیت سے نفرت :
تقریبًا ساڑھے تین ہزار سال پہلے کی بات ہے کہ ایک نبی اورایک بادشاہ کا مقابلہ تھا بادشاہ نے اہلِ مُلک کو چند طبقوں میں تقسیم کررکھاتھا، بادشاہ کی قوم جاگیر دار تھی جس نے نبی کی قوم کو غلام بنا رکھا تھا ،وہ نہ صرف یہ کہ غلام قوم سے مویشی کی طرح کام لیتی تھی بلکہ اُس کی نسل کوبھی خاص حدمیں محدود رکھتی تھی کہ تعداد کی زیادتی سے بھی سر کشی کا خطرہ تھا، وہ برتھ کنٹرول کے جھمیلے میں نہیں پڑتی تھی بلکہ جب ضرورت سمجھتی لڑکوں کو ذبح کرادیتی تھی صرف لڑکیوں کو باقی رکھتی تھی کیونکہ اُن سے یہ خطرہ نہیں تھا اور گھریلو خد مت کے لیے بھی اُن کی ضرورت تھی۔ (سورۂ قصص آیت : ٤)
نبی کا مطالبہ تھا کہ غلام قوم کو اِنسانی زند گی کا موقع دیا جائے اُس کے اُوپر سے پا بندیاں ہٹائی جائیں تاکہ نبی اپنی قوم کو جہاں چاہے لے جائے مگر بادشاہ اوراُس کی قوم اِس کے لیے تیار نہیں تھی کہ پشت ہا پشت کی غلام قوم کوآزاد کر کے اپنے جاگیر دارانہ مفاد کو ختم کر دے۔ یہ کشمکش جا ری تھی کہ بادشاہ نے اپنی بر تری ثابت کر نے کے لیے اپنی قوم کے سامنے یہ سوال رکھا :
''کیامصر کے مُلک اور یہ نہریں جواِس مُلک میں بہہ رہی ہیں میری نہیں ہیں اورمیں بہتر ہوں یایہ گھٹیا درجہ کا آدمی جواپنے آپ کو خدا کابھیجاہوا نبی کہتاہے ؟ اِس کے پاس عظمت اور قیادت کا کوئی نشان نہیں ہے، نہ ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں (جو سر داروں کامخصوص نشان ہوتے ہیں) جس خدا نے اِس کو ید ِبیضا کامعجزہ دیاہے اُس نے سو نے کے کنگن کیوں نہیں دیے، اور ایسا کیوں نہیں کیا