(٥) ''اور اُسی نے (اے نوع اِنسان )تم کو بنایا نائب زمین میں۔''
(سورہ اَنعام آیت : ١٦٥)
''وہی جس نے بنایا تم کو قائم مقام زمین میں۔ ''(سورۂ فاطر آیت : ٣٩)
مختصر یہ کہ اِسلام حکمرانی اور با دشاہت کوبر داشت توکیا کرتا ملوکیت کے نام سے بھی اُس کو نفرت ہے۔ آنحضرت ۖ کااِرشاد ہے : اَخْنَعُ الْاَسْمَائِ عِنْدَ اللّٰہِ رَجُل تَسَمَّی بِمَلِکِ الْاَمْلَاکِ ١ (بخاری شریف کتاب الادب رقم الحدیث ٦٢٠٦)
اَلبتہ وہ اِنسان کو'' خلیفہ، نائب اور قائم مقام'' قرار دیتاہے۔ اَنبیاء علیہم السلام کے بعد اللہ کا خلیفہ وہ ہے جس کو اللہ کے ماننے والے، خدا پرستی، خدا شناسی اورخدا ترسی (تقوی) کی بنیاد پر اپنا سربراہ بنائیں، اُس کے مشیروہ ہوں گے جوبہتراَخلاق و کر دار اور قانونِ خدا وندی کی پابندی کے معیار پرپورے اُتر تے ہوں اور خدا پرستی کے نمونے ہوں، اِس ہیئت ِ حاکمہ کو'' خلافت ''کہاجاتا ہے اُس کے سامنے خدا کا دیا ہوا دستور ِ اَساسی ہوتا ہے جس کی روشنی میں سر براہِ خلافت فیصلہ کرتا ہے۔
جدید اِصطلاح :
بیسویں صدی کی جدت یہ ہے کہ اِس کو حکومت ِ اِلٰہیہ کہاجاتا ہے مگر لسانِ نبوت علی صاحبہا الصلوة والسلام نے اِس کے لیے لفظ خلافت عطا کیاتھا، حضراتِ صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے اِسی عنوان کو اِختیار کیا۔ قرآن شریف میں ایسے سربراہ کو خلیفہ فرمایا گیا۔ (سورۂ ص ، وغیرہ)
''حکومت اِلٰہیہ ''کا لفظ بے محل اور غیر موزوں بھی ہے اورخلافِ اِحتیاط بھی۔'' خوارج'' کا ذوق وشوق یہ تھا کہ اگر اُن کوحکومت قائم کرنے کامو قع ملتاتووہ اُس کو'' حکومت ِاِلٰہیہ ''کہتے کیونکہ (اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ) اُن ہی کا نعرہ تھا جس کے متعلق حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فیصلہ یہ تھا : اَلْکَلِمَةُ حَق اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِلُ بات ٹھیک ہے مطلب غلط لیا گیا ہے۔
1. اللہ کے نزدیک سب سے بدترین ناموں میں اُس کا نام ہوگا جو ''ملک الاملاک''(شہنشاہ)اپنا نام رکھے گا۔
2.