بھی مغلو بیت و مفتوح ملت کومحض پست فکری اور یاس و نااُمیدی سے نکالنے کے طرزِ قیادت میں متصور نہیں ہو سکتا۔'' ١
سب کا حاصل یہی ہے کہ حضرت نا نو توی نے سامراجی تسلط سے آزادی حاصل کرنے، اُس کے نظام ِ تعلیم کے ذریعہ تہذیب و تشخیص کو مٹانے کے ناپاک منصوبے کو نا کام بنانے اور اعلائِ کلمة اللہ کو اپنی زندگی کا مقصد ِاَوّلین بنایا اور میدانِ شاملی کے بعد اِس کا بہترین حل تلاش کرتے ہوئے دارُ العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور قیامِ مدارس کی تحریک شروع کی۔
تیسرے محاذ کے سلسلے میں مذکور اِشارہ پر اِکتفاء کرتے ہوئے یہاں آپ کی دینی حمیت کے ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے جنگ ِ بلقان کے مجاہدین کا مالی تعاون اوراُس میں شر کت کے مقصد سے حجاز کا سفر۔
جنگ ِ بلقان کے مجاہدین کی اِعانت واِمداد :
حضرت نا نوتوی کی حمیت ِ دینی اور غیرت ملی کا ایک بہت اہم باب جنگ ِ بلقان میں مجاہدین کی مالی اِمداد و تعاون اوراِس جہاد میں بنفس ِ نفیس شرکت کے مقصد سے حجاز کا سفر ہے جو اِتفاق سے مشہور نہیں ہوا یعنی جب نکولس کے بیٹے الیگز ینڈر دوم شاہِ رُوس نے مارچ ١٨٥٦ء / رجب١٢٧٣ھ کے صلح نامے کے باوجود بغیر کسی معقول وجہ کے تر کی (عثمانی) حکومت کی فوج پر اچانک ١٨٧٤ء /١٢٩٤ھ میں ایک بڑا حملہ کر دیا توتر کی فوج کو مقابلہ میں سخت پریشانی ہوئی اوریکے بعد دیگرے بلقانی ریا ستوں کے علاقے عثمانی خلافت کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے، اِسی موقع پر حضرت نا نو توی اور اُن کے رُفقاء سر بکف میدان میں آئے اور اُن کی حمایت کے لیے مالی اِمداد و تعاون کے ساتھ ساتھ حجاز، پھر وہاں سے ترکی حکومت کے زیر اِنتظام جنگ کے میدان میں جانے کا فیصلہ کیا، اگرچہ وہ حجاز ہی سے حالات کا جائزہ لے کر واپس آگئے۔ حضرت مولانا نور الحسن راشد صاحب کاند ھلوی لکھتے ہیں :
١ حجة الاسلام الامام محمدقاسم نا نو توی حیات ، اَفکار، خدمات(مجموعہ مقالات حجة الاسلام سیمینار)دُوسرا ایڈیشن ٢٠٠٧ء ،تنظیم اَبنائے قدیم دارُ العلوم دیوبند نئی دہلی ص ٦٢، ٦٣۔
''ا