اِسلام فرد کو ملکیت عطا کرتا ہے مگر یہ گوارہ نہیں کرتا کہ کسی وقت بھی فرد اِس حقیقت کوفراموش کردے کہ یہ مِلک در حقیقت اَمانت ہے جس کو ملکیت کی تعبیر مستعار دے دی گئی ہے۔
اِسلام دولت کی تقسیم خود کرتا ہے، تقسیم کے بعد فرد کو جو کچھ دیتاہے وہ بھی اِس شرط پر کہ باقی ماندہ میں بھی اُس کو فیصلہ ٔ خدا وندی کی تعمیل کرنی ہوگی۔اِسلام نے فیصلہ کے اُصول مقرر کردیے ہیں جن کے ماتحت تفصیلات مرتب کرنا اور اُن کو نافذ کرنا اُس نظام کے حوالہ ہوتا ہے جس کو'' خلافت ''کہاجاتا ہے جوایک طرف حاکم علی الا طلاق یعنی خداوند ِعالم کی نیابت ہوتی ہے کہ وہ ذمہ داریاں پوری کرے جو رب العالمین نے اپنی مخلوق کے بارے میں اپنے اُوپر لی ہیں، مثلاً اِرشاد ہے :
( وَمَا دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا) (سُورۂ ھود آیت : ٦ )
''اور کوئی نہیں پاؤ ںچلنے والا زمین پر مگر اللہ پر اُس کی روزی ہے۔ ''
دُوسری طرف وہ بندگانِ خدا کی نیابت ہوتی ہے تاکہ وہ خدمات اَنجام پا سکیں جن کے لیے جماعتی طاقت اور فیصلہ کی ضررت ہوتی ہے۔
خلیفہ صرف مخلوق کے سامنے نہیں بلکہ خالق کے سامنے بھی جوابدہ ہے اور اِسی لیے وہ پابندہے کہ جس طرح مخلوق کے معاملات میں وہ شورٰی سے مشورہ کرے اِسی طرح وہ خالق کے عطا کردہ قانون اور دستور کے منشاء کو سمجھنے میں شورٰی سے مدد حاصل کرے۔ خلیفہ کے فرائض اور شرائط وغیرہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں اَلبتہ وہ جس طرح دولت کی تقسیم کرے گا اُس کی تفصیل اِنشاء اللہ آئے گی۔
سرمایہ داری :
ایک مسلمان سرمایہ دار نہیں ہو سکتا، سرمایہ دار اپنی دولت کو خالص اپنی مِلک اور ایسی مِلک سمجھتا ہے جس کا وہ پوری طرح مالک ہے اور اُس کو من مانی کرنے کا پورا اِختیار ہے لیکن ایک مسلمان جس اِیمان کی بنیاد پر اپنے آپ کومسلمان کہتا ہے وہ اپنی دولت کا مالک ِحقیقی خود نہیں بلکہ خدا کوقرار دیتا ہے اوراِس بنا پر صاحب اِیمان مسلمان پابند ہوتا ہے کہ دولت کو حاصل کرنے میں بھی مالک کی مرضی پر عمل