''اور کسی اِیماندار مرد اور کسی اِیماندار عورت کو اِس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول کسی کام کا حکم دے دیں پھر اُن مؤمنین کو اُن کے اِس کام میں کوئی اِختیار باقی رہے، اور جو شخص اللہ کا اور اُس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔''
مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے بخوبی اَندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں اِتباعِ سنت کی کس قدر اہمیت ہے اور اِس سلسلہ میں کوتاہی کتنی بڑی خسارہ کی بات ہے ؟ نبی اکرم ۖ نے اَحادیث شریفہ میں بھی اِتباعِ سنت کی تاکید بہت زیادہ فرمائی ہے۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر علیہ السلام نے ہمارے سامنے ایسا مؤثر وعظ فرمایا جس سے دل کانپ گئے اور آنکھیں نم ہوگئیں تو ہم نے پیغمبر علیہ السلام سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ تو گویاکہ اَلوداعی وعظ معلوم ہوتا ہے اِس لیے ہمیں کوئی وصیت فرمادیجئے۔ تو آپ نے اِرشاد فرمایا :
اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَاِنْ تَاَمَّرَ عَلَیْکُمْ عَبْد ، وَاِنَّہ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفاً کَثِیْرًا ، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِیْ ، عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَة۔ (رواہ ابوداود حدیث: ٤٦٧٠ ، ترمذی: ٢٦٧٦ ، الترغیب والترہیب ٥٨ ، المتجر الرابح ٤٩)
''میں تم کو اللہ سے ڈرنے اور حکام کی فرمانبرداری کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تم پر کسی غلام کو اَمیر بنادیا جائے اور جو آئندہ زندہ رہے گا وہ بہت اِختلافات دیکھے گا لہٰذا تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ پر قائم رہنا، اُن پر دانت گاڑلینا اور نت نئی باتوں سے بچتے رہنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔''
اور ایک روایت میں پیغمبر علیہ السلام نے اِرشاد فرمایا :