، بستی بستی سے جمع کر کے بھجوائی تھی وہ بارہ لاکھ روپے تھے جواُس زمانے کے لحاظ سے تو بہت بڑی رقم تھی اُس زمانے کے اَوسط اور قوت ِ خرید کو دیکھئے تویہ رقم آج کل کے لحاظ سے دس کروڑ سے بھی زائد ہوگی۔ اِس قدر بڑی رقم کافراہم کر لیناآج بھی آسان نہیں مگر یہ حضرت نا نو توی اور اُن کے رُفقاء کی حمیتِ ِدینی اور اُن کے جذبۂ اخلاص کااَ ثر تھاکہ عام مسلمانوں کی طرف سے یہ بڑی مہم سر اَنجام پائی اور چندہ کی اِس خطیر رقم کے بارے میں حضرت مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اِس رقم میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نا نو توی کی اہلیہ کے زیوروں کی قیمت بھی شامل تھی جس کی مالیت تقریبًا دو لاکھ روپے تھی، یقینا یہ حضرت نا نو توی کے ملت ِ اِسلامیہ کے لیے اپناسب کچھ قربان کردینے کے جذبہ کااَثر تھا ورنہ کسی عورت کے لیے اپنے اِس قدر مہنگے زیورات سے دستبردار ہوناکوئی آسان بات نہیں تھی۔
اِعانت و مدد کی دُوسری شکل :
اِس اِعانت ومدد کی دُوسری شکل یہ تھی کہ خود موقع پر میدانِ جنگ میں جا کر اُس جماعت اور قافلہ ٔ جہاد میں شریک ہوں، قا فلہ ٔ اِیمان کو اپنے لہو سے سیراب کریں اورچمنِ اِسلام کو اپنی جان دے کر شاداب فرمائیں لیکن عوام کو اِس کی تر غیب نہیں دی گئی اور اُن کے لیے مالی تعاون کو کافی سمجھاگیا جیسا کہ اُن کی تحریروں میں صاف طور پر اِس کاتذکرہ ملتاہے۔ اب اِس منصوبے پر عمل کر نے کے لیے سب سے بہتر صورت یہی ہو سکتی تھی کہ سفر حجاز پرجائیں اور وہاں کے حالات کامشاہدہ کر کے سفر کے دُوسرے مرحلے کی تیاری کریں اِس لیے سفرِ حج کا اِرادہ کر لیاگیا اور اُس کا رواں میں جو نئی منزلوں کامسافر بن کر سفر کے لیے روانہ ہو رہا تھا نامور علماء کی کثیر تعداد شریک تھی، اُس سفرسے متعلق روایات واِطلاعات اگر چہ واضح نہیں ہیں کہ یہ سفر کیوں اورکن مقاصد کے لیے ہو رہا تھا مگراِس کاعام طورسے اَندازہ تھاکہ علمائِ ہند جہاد کے اِرادے سے سفرِ حج پر جا رہے ہیں اِس لیے جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی لوگ جوق دَر جوق اِن حضرات کی رفاقت کے لیے کھڑے ہوئے اور ایسا رُجوعِ عام ہوا کہ ساتھ جانے کے لیے سوسے