اوراُن کویاد رہے کہ ہندوستان میں بھی اُن کے دینی بھائی موجود ہیں جواُن کی مصیبت کے موقع پر اُن کے ساتھ اور اُن کے رنجم و اَلم میں برا بر کے شریک ہیں۔
لہٰذا اِس کے لیے حضرت نا نو توی اور اُن کے رُفقاء نے عام مسلمانوں سے بڑی رقم اکٹھی کرکے بابِ عالی (مرکزی حکومت ترکی، اِستنبول) بھجوانے کی کوششیں شروع کیں۔ حضرت نا نو توی نے سب سے پہلے مدرسہ دیو بند (دارُ العلوم دیوبند) کے سب ذمہ داروں، مدرسین، طلباء اور اہلِ قصبہ دیو بند سے تعاون کی در خواست کی، اِس کے علاوہ اپنے سب شا گردوں، متوسلین، نیاز مندوں اور مدرسہ کے ذمہ داروں کو اِدھر متوجہ فرمایا اور دیو بند، نا نو تہ، گنگوہ، تھانہ بھون، کاندھلہ اور اَطراف کے قصبات اور شہروں کے علاوہ دُور دراز شہروں میں بھی اِس در خواست کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی۔ صرف دیو بند قصبہ، دارُ العلوم دیوبند کے اَساتذہ منتظمین اور طلباء نے تقریبًا دو ہزار روپے پیش کیے، دیوبند سے پانچ مر تبہ تعاون کی رقم فراہم ہوئی جوترکی حکومت کے قو نصل مقیم ممبئی کوبھیجی گئی، اُن میں سے ہر ایک قسط میں طلباء شامل تھے،دیوبندکے ضلع سہارنپور میں حضرت مولانا اَحمدعلی صاحب محدث سہارنپوری اور مولانا محمدمظہر صاحب نا نو توی وغیرہ اُس کی رہنمائی فرما رہے تھے اور گنگوہ میں اِس تحریک کو حضرت مولانا رشید اَحمد صاحب گنگوہی کی سرپرستی و نگرانی حاصل تھی اِس لیے اِن علاقوں اور اِن کے اِطراف سے بڑا چندہ ہوا جوکئی قسطوں میں قو نصلر حکومت ترکی کوممبئی بھیجاگیا۔
اِن قسطوں کی تفصیلات اورقونصلر کی طرف سے رسیدیں اور شکریہ کے خطوط ایک دستاویز ''رُوداد چندہ ٔ بلقان بہ سر پرستی حضرت مولانا محمد قا سم نانو توی'' میں موجود ہیں جسے حضرت مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی نے اپنی کتاب'' قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قا سم نانو توی اَحوال وآثار و باقیات'' میں شامل کرکے شائع کیا ہے۔
اِس تحریک کو پورے ملک سے جوتعاون ملا وہ غالباً ہندوستان کی اُس وقت تک کی مِلّی تاریخ کا سب سے پہلااور عظیم ترین تعاون تھا، وہ رقم جوہندوستان کے بے کس، غریب مسلمانوں نے گھر گھر